می ٹو

“می ٹو” ایک کڑوا سچ

راجا خضر یو نس
“می ٹو “کی مہم کا شور وغوغا ہالی وڈ، بالی وڈ سے ہو تا ہو ا لولی وڈ بھی پہنچ گیا۔قارئین کی یاد دہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ گزشتہ دو سالوں سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے” می ٹو”کاآغاز کیا گیاتھا۔جس کا مقصد خواتین کے ساتھ کام کرنے والی جگہ پر ہونے والی جنسی ہر اسگی کی طرف توجہ دلانا تھا اور متاثرہ خواتین کو اس صدمے سے نکالنا تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ مہم مختلف صورتحال اختیار کر تی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈ سٹری ہالی وڈ کے معروف ڈائریکٹرہاروی وینسٹن کا نام آیا جو خواتین کے سا تھ جنسی زیادتی کے متعدد واقعات میں ملوث پائے گئے۔اس کے بعد دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری بالی وڈ میں بھی اس کے اثرات نظر آنے لگے۔جہاں فلم سٹار تنو شری دتہ نے معروف اداکار نانا پاٹیکر پر “می ٹو”کا الزام لگایا۔ جس کے بعد تو بالی وڈ میں طوفان برپا ہو گیا۔ نانا کو بہت سے فلمی پروجیکٹ سے ہاتھ دھو نا پڑا اس کے بعد ساجد خان بھی اس کا شکار ہو گئے۔ اب لولی وڈ اور بالی وڈ کے بعد پاکستانی فلمی صنعت(لولی وڈ) بھی “می ٹو”سے بچ نہ پائی۔ معروف گلوکارہ و اداکارہ میشا شفیع اور مقبول گلوکار علی ظفرکا تنازعہ آج کل مقامی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ مگر لولی وڈ میں سب سے اہم موڑ گز شتہ چار دن پہلے آیاجب معروف ہدایت کار جامی نے می ٹو#کا حصہ بنتے ہوئے کہہ کہ آج سے تیرہ سال پہلے وہ جنسی زیادتی کا شکار بن چکے ہیں اور ان سے زیادتی کرنے والا ایک میڈیا ٹائیکون بتایا گیا مگر جامی نے نام ظاہر کرنے سے اجتناب کیا۔ جامی کے اس بیان کے بعد میشا شفیع نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جامی کے اقدام کو سراہا ہے۔اگر دیکھا جائے تو جہاں خواتین جنسی ہراسگی کا شکار ہوئیں وہیں مرد بھی کہیں نہ کہیں اس حادثے سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔یہاں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جنسی ہراسگی کاشکار ہونے والا فرد چاہے وہ عورت ہو یا مرد ساری زندگی اس صدمے سے دوچار رہتا ہے اور مختلف نفسیاتی اعوراض کا شکار ہو جاتا ہے۔

جامی کے اظہار نے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی یکساں طور پر اس کا شکار ہیں۔جامی اس حوالے سے داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا اظہار کیاکہ پدر سری معاشرے میں جہاں بات بات پر مرد کی مردانگی پر حرف آتا ہے،جہاں آپ کھل کر اپنے مسائل پر بھی بات نہیں کر سکتے اس معاشرے میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا اظہار کرنا کو ئی آسان کام نہیں بلکہ حقیقت میں بہادری کا کام ہے۔ حالیہ دنوں میں لاہور کہ ایک کالج کے پروفیسر کی المناک موت سے اس مہم کو شدید دھچکہ لگاکہ محض الزام تراشیوں سے کسی بھی فرد کی زند گی کو اجیرن نہیں بنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر محض الزام تراشی نہ کی جائے اور نہ ہی اس کا شکار ہونے والے افراد کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے بلکہ اس تحریک کی نزاکت کو سمجھتے ہو ئے اسے ایک آگاہی مہم کے تناظر میں دیکھاجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں