منی لانڈرنگ کیس

منی لانڈرنگ کیس،ایف آئی اے کی شہباز شریف کی ضمانت منسوخی کی درخواست خارج

لاہور (نمائندہ عکس) عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی دائرہ اختیار اور ضمانت منسوخی کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف کی ضمانت کو منسوخ کرنے کی درخواست خارج کردی جب کہ عدالت نے شہباز شریف کی پیر کی حاضری معافی کی درخواست بھی منظور کرلی،عدالت نے شریک ملزم کی جانب سے عدالتی دائرہ اختیار کی درخواست بھی خارج کردی۔ عدالت نے شہباز شریف،حمزہ شہباز و دیگر کو فرد جرم کے لیے 11 اپریل کو طلب کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق اسپیشل کورٹ سنٹرل لاہورمیں منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ اسپیشل جج سنٹرل اعجاز حسن اعوان نے سماعت کی جبکہ حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان نے حاضری مکمل کی۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت سے کہا کہ شہباز شریف کو ایک روز کیلئے حاضری سے استثنی دیا جائے۔ سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس میں شہباز شریف بھی پیش ہو رہے ہیں۔ ایسوسی ایٹ وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ وکیل ایف آئی نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے استفسارکیا کہ آپ کی استثنی کی درخواست میں یہی وجہ بتائی گئی ہے کہ شہباز شریف سپریم میں مصروف ہیں۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر کے براہ راست مخاطب کرنے امجد پرویز ایڈووکیٹ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت سے بات کریں، مجھ سے براہ راست بات نہیں کریں۔ سکندر ذوالقرنین سلیم وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ شہباز شریف کو سپریم کورٹ نے طلب ہی نہیں کیا جس پر امجدپرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ شہبازشریف سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کرنے جا رہے ہیں۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شہبازشریف بطور صدر مسلم لیگ اور سابق اپوزیشن لیڈر سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ اگر آج سپریم کورٹ میں درخواست دائر نہیں کرتے تو ایف آئی اے کارروائی کی استدعا کر سکتا ہے۔فاضل جج نے کہا کہ آپ اب دائرہ اختیار پر بحث کریں۔ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ اگر تو میڈیا رپورٹس کی حد تک بحث کرنی ہے تو اور بات ہے۔ میڈیا پر تو یہ بھی چل رہا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے پراسیکیوشن ٹیم کو نوٹس دیا ہے۔وکیل شہباز شریف نے کہا کہ کوئی بھی عدالت مجاز نہیں کہ وہ یہ طے کرے فلاں عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے۔ 27 بنکرز کے بیانات چالان کا حصہ نہیں تھے۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلال دیے کہ 4 گواہوں کے مجسٹریٹ کے سامنے قلمبند بیانات بھی بنکنگ عدالت کے سامنے چالان کا حصہ نہیں تھے۔وکیل ملزم محمد عثمان نے کہا کہ شریک ملزم محمد عثمان پر الزام لگایا گیا کہ سارے بنک ملزم کے زیرعتاب تھے۔ چالان پیش ہونے کے بعد ایف آئی آر پر لکھی رقم 25 ارب سے کم ہو کر 16 ارب روپے تک آ گئی۔

وکیل ملزم نے کہا کہ بنکرز پر شہباز شریف فیملی کے دباﺅ میں ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس وجہ سے کچھ بنکرز کو پراسیکیوشن کا گواہ بھی نہیں بنایا گیا۔وکیل ملزم محمد عثمان نے کہا کہ بنکنگ جرائم عدالت نے کہا تھا کہ بنکرز اگر چالان میں نامزد ہوئے تو پھر بنکنگ عدالت کا ہی دائرہ اختیار ہے۔ چالان میں بنکرز کا شہباز زیراثر ہونے کا لکھا گیا اور ضمنی چالان میں بنکرز کو بری الذمہ قراردے دیا۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے استغاثہ کی شہادت قلمبند کرتے ہوئے بھی دائرہ اختیار کے نکتے پر فیصلہ کیا جسے ہائیکورٹ نے برقرار رکھا۔وکیل ملزم نے دلائل میں کہا کہ عدالت اگر چاہے تو بنکرز کو بھی چالان کر سکتی ہے۔فاضل جج نے استفسار کیا کہ بنکرز کے چالان ہونے سے کیا ہوگا؟ملزم محمد عثمان کے وکیل نے کہا کہ بنکرزچالان ہونے سے اس عدالت کا دائرہ اختیار ختم ہو جائے گا۔ عدالت دائرہ اختیار کے معاملے کو صرف ایک ملزم کی حد تک نہیں دیکھے گی۔ ملزم کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ عدالت کے دائرہ اختیار کے فیصلے کا اطلاق تمام ملزموں پر ہوگا۔ بنکرز کو اعانت جرم میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ ایف آی اے کے وکیل نے کہا کہ جتنے بے نامی اکانٹس کھلے اس پر سی ایف او عثمان کی مہر لگی ہے۔ عدالتی دائرہ اختیار کے معاملے پر فریقین کے وکلا نے دلائل مکمل کیے۔

عدالت نے ایف آئی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ شہباز شریف کی ضمانت منسوخی پر کیا کہتے ہیں؟ سکندر ذوالقرنین سلیم وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ اگر عدالت آج کی حاضری سے استثنی کی درخواست پر فیصلہ کرتی ہے تو وہ درخواست غیر موثر ہو سکتی ہے۔ ایف آئی اے پراسیکیوشن گزشتہ عدالتی حکم پر نظر ثانی کا نہیں کہہ رہی۔ وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ اسمبلی اجلاس میں شرکت کی وجہ سے حاضری معافی پر فیصلہ دے چکی ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کہہ چکی ہے کہ تمام شہری برابر ہیں۔ عدالت کے پاس اپنے حاضری معافی کے حکم کی تصیح کا اختیار ہے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت تصیح تبھی کرتی ہے جب حکم قانون سے ہٹ کر ہو۔ سپریم کورٹ کا فل بنچ رکن اسمبلی کے حاضری معافی پر فیصلہ دے چکا ہے۔ ایف آئی اے کی ضمانت منسوخی کی درخواست بلاجواز ہے۔ وکیل شہبازشریف نے کہا کہ اگر ایف آئی اے کو ضمانت میں توسیع کے فیصلے پر اعتراض ہے تو اسے ہائیکورٹ میں چیلنج کرنا چاہئے تھا۔ عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد 25 مارچ کو استثنی دیا تھا۔ اس سے قبل بھی ممبر اسمبلی کو استثنی ملتا ہے یہ قانونی عمل ہے۔

امجد پرویز وکیل شہباز شریف نے دلائل دیے کہ کوئی صاحب ہیں اسلام آباد میں جنہیں وزیر قانون کا چارج ملا ہے وہ ضمانت منسوخی کی درخواست کو دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس پر بھروسہ نہیں کرتا، مگر سنا یہی ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے پراسیکیوشن ٹیم کو نوٹس دیا ہے۔ وکیل شہباز شریف نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن ہر تاریخ پر جھوٹی درخواست بازی کرتی ہے اور سارا بوجھ اس عدالت پر ڈال دیا جاتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف کی ضمانت کو منسوخ کرنے کی درخواست خارج کردی جب کہ عدالت نے شہباز شریف کی آج کی حاضری معافی کی درخواست بھی منظور کرلی۔ عدالت نے شریک ملزم کی جانب سے عدالتی دائرہ اختیار کی درخواست بھی خارج کردی۔ عدالت نے شہباز شریف،حمزہ شہباز و دیگر کو فرد جرم کے لیے 11 اپریل کو طلب کرلیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں