گاندھی جی کا بندر

مقبوضہ کشمیر،مودی سرکار نے صحافیوں کو گاندھی جی کا بندر بنا دیا

سری نگر(عکس آن لائن) بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کیلیے کام کرنا تقریبا ناممکن بنادیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کے باعث صحافیوں کے لیے نہ صرف معلومات فراہم کرنے میں شدید دشواریاں ہیں بلکہ سفر کرنا بھی خطرناک ہوگیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے صحافیوں کو گاندھی جی کا بند بنا دیا گےا ہو ،سب اچھا ہے ہرا ہے برا کچھ نہیں۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق صحافی ریاض مسرور نے بتایا کہ کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ کرنا مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے لیے کام کرنے والے صحافیوں دونوں کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے، ایک ماہ سے پابندیاں نافذ ہیں، تجارتی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون بند ہونے کی وجہ سے صحافی اپنا کام نہیں بھیج پاتے۔صحافی شون ستیش نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں کام کرنا تقریبا ناممکن ہے اور کوئی آزادی نہیں ہے، ایک روز رپورٹنگ کے دوران ایک کشمیری نوجوان نے اپنی موٹرسائیکل پر مجھے لفٹ دی، تو رستے میں مجھے ہمیں بھارتی سی آر پی ایف نے روکا، انھوں نے روک کر اس نوجوان سے کافی سوال پوچھے اور تلاشی لی تو اس سے صرف ایک صفائی کرنے والا کپڑا ملا، لیکن بھارتی فورس نے نوجوان پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ تم تو پتھراﺅ کرنے میں ملوث ہو، اہلکاروں نے مجھے سے کیمرہ اور فون چھین لیا، الٹے سیدھے سوالات پوچھتے رہے اور تھانے لے جاکر پولیس کے حوالے کرکے حراست میں لے لیا، اور کافی دیر بعد چھوڑا۔

شون نے کہا کہ انتظامیہ کہتی ہے کہ سب کچھ نارمل ہے اور حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن جب ہم باہر جاتے ہیں تو فوج یا پولیس ہمیں جانے نہیں دیتی، پوچھ تاچھ کرتی ہے اور کوئی چیز فلم بند کرنے کی اجازت نہیں دیتی، اگر مجھے حراست میں لے لیا جائے تو میں کسی کو بتا بھی نہیں سکوں گا۔فوٹو جرنلسٹ زوہیب کو 2016 میں کام کرتے ہوئے آنکھ میں آہنی چھرہ لگا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہر کام قسطوں میں ہو رہا ہے، کشمیر میں اب قسطوں کی زندگی گزارنی پڑے گی کیونکہ ذرائع مواصلات کی مکمل بندش ہے، جو شون کے ساتھ ہوا وہ ہر مقامی صحافی کے ساتھ روز ہوتا ہے، صحافی جہاں بھی رکیں تو سی آر پی ایف اہلکاروں کے موڈ بگڑ جاتے ہیں۔شون اور زوہیب نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز کے اہلکار اکثر صحافیوں کو روک کر ان کے میموری کارڈ خالی کروا لیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں