مقامی کاٹن مارکیٹ

مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں نمایاں اضافہ ،دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے

کراچی (عکس آن لائن)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران ٹیکسٹائل واسپنگ ملزکی اعلی کوالٹی روئی کی خریداری میں دلچسپی اور بھٹی کی رسد میں بھی اضافے کے باعث روئی کے بھاؤ میں نمایاں اضافہ ہوا جو بڑھ کر فی من تقریبا 9800 روپے کے لگ بھگ گزشتہ دس سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

بلوچی روئی تقریبا 11000 روپے میں فروخت ہوئی اس طرح ہفتہ کے دوران روئی کے بھاؤ میں تقریبا فی من 400 روپے کا نمایاں اضافہ ہوا اسی طرح پھٹی کا بھا ؤبھی بڑھ کر 5500 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا روئی کے بھاؤ میں اضافہ کے باعث ٹیکسٹائل واسپنگ ملز اور جنرز اضطراب میں مبتلا نظر آئے گو کہ ٹیکسٹائل ملز کے بڑے گروپوں نے بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں سے روئی کی درآمدی معاہدے بڑھا دیئے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مقامی کاٹن کا بھاؤ بین الاقوامی کاٹن کے بھا ؤسے فی من تقریبا 600 تا 800 روپے زیادہ ہے روئی کے درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ فی الحال بیرون ممالک سے روئی کی تقریبا 20 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدہ ہو چکے ہیں

جبکہ روزانہ نئے معاہدے کیے جا رہے ہیں یکم اکتوبر کو پاکستان کاٹن جنرز کی جانب سے اس عرصے تک ملک میں روئی کی پیداوار کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق اس عرصے تک ملک میں کپاس کی تقریبا 20 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار ہوئی ہے جو گزشتہ سال کی اسی عرصے کی پیداوار سے تقریبا 10 لاکھ گانٹھیں کم ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال ٹیکسٹائل ملز اور جنرز کا مقابلہ ہو رہا ہے جتنی روئی ملک میں پیدا ہو رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے روئی کے درآمدی معاہدے ہو رہے ہیں

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو اس سیزن میں بیرون ممالک سے روئی کی تقریبا 60 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑے گی جس کا بوجھ پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکار بیمار معیشت کو برداشت کرنا پڑے گا۔ہفتے کے دوران روئی کا بھاؤ صوبہ سندھ میں فی من 8400 تا 9400 روپے پھٹی کا بھاؤ 4000 تا 4800 روپے بنولہ کا بھاؤ فی من 1700 تا 1800 روپے جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 8900 تا 9800 روپے پھٹی کا بھاؤ 3900 تا 5100 روپے بنولہ کا بھاؤ فی من 1900 تا 2200 روپے رہا صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ فی من 8900 تا 9000 روپے پھٹی کا بھاؤ 4500 تا 5500 روپے رہا۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 450 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 9500 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔

کراچی کاٹن بروکرزفورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھاؤ میں مجموعی طورپر تیزی کا عنصر رہا نیویارک کاٹن مارکیٹ میں بدھ تک ڈیلٹا طوفان سے نقصان ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے نیویارک کا بھاؤ بڑھ گیا تھا لیکن جمعرات کو USDA کی جانب سے نیویارک کاٹن کی ہفتہ وار برآمدی رپورٹ خلاف توقع منفی آنے کی وجہ سے نیویارک کاٹن میں کمی واقع ہوئی برازیل اور ارجنٹینا سوڈان میں روئی کا بھاؤ مستحکم رہا لیکن بھارت میں روئی کے بھا ؤمیں اضافہ کا رجحان رہا۔

علاوہ ازیں 7 اکتوبر کو لاہور میں World cotton day کا انعقاد کیا گیا پاکستان میں بھی 7 اکتوبر کو لاہور میں Zoom کے ذریعے کاٹن ڈے منایا گیا جس میں بین الاقوامی مندوبین نے حصہ لیا جبکہ 8 اکتوبر کو اسلام آباد میں PCGA میڈیا FPCCI اور PBIF کے اشتراک سے کاٹن سیمینار منعقد کیا گیا تھا جس میں مہمان خصوصی MNFSR کے وفاقی وزیر سید فخر امام اور وزیراعظم کے ٹیکسٹائل کے مشیر عبدالرزاق داد نے شرکت کی تھی وفاقی وزیر برائے MNFSR سید فخر امام نے کپاس کی فصل بڑھانے کے لیے آئندہ سیزن کے لیے ابھی سے موثر حکمت عملی کرانے پر زور دیا انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کو خصوصی مراعات دیے جائیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ حکومت کا بیرون ممالک سے کپاس کے بیج درآمد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اس اعلان سے شرکا کو مایوسی ہوئی گو کہ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں کپاس کی زبوںحالی ہورہی ہے اس سال دیگر عوامل کے علاوہ کپاس کی فصل کو انتہائی ناقص بیجوں کی وجہ سے کپاس کی پیداوار زبردست مثاثر ہوئی ہے کپاس سے منسلک لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں کپاس کے فعال بیج کا فقدان ہے اس وجہ سے فوری طور پر بیرون ممالک خصوصی طور پر چین سے زرعی ماہرین اور کپاس کے بیج بھی درآمد کیے جائیں وزیر موصوف کے کپاس کے بیج درآمد نہ کرنے کے اعلان سے سب کو مایوسی ہوئی۔

کیوں کہ مقامی طور پر فعال بھیج نہیں بنائے جاتے وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داد نے کہا کہ میرے بارے میں ابہام ہے کہ میں کاشتکاروں کی مخالفت کرتا ہوں انہوں نے کہا کہ یہ بات سراسر غلط ہے میں کاشتکاروں کا حامی ہوں انہوں نے کہا کہ میں نے کپاس کی Support Price کی مخالفت اس لیے کی کہ اس سے روئی کا بھاؤ بڑھ جائے گا اور ٹیکسٹائل ملز کو مقابلہ کرنے میں دشواری ہو گی جس کے سبب ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت متاثر ہوگی کپاس کے کاشتکاروں اور اسٹیک ہولڈروں کو یہ بات بھی پسند نہیں آئی کیوں کے نہ کپاس کی امدادی قیمت مقرر کرنے کی حمایت خود وفاقی وزیر MNFSR سید فخر امام اور وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی تھی۔

کاٹن سیمینارسے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر ڈاکٹر جیسومل لیمانی FPCCI کے صدر انجم نثار PBIF کے صدر میاں زاہد حسین، خالد کھوکر، عماد فیاض الدین کاٹن کمیشنر خالد عبداللہ اور دیگر جنرز اور ماہرین نے خطاب کیا انہوں نے کپاس کی فصل بڑھانے کے لیے تجاویز پیش کی خصوصی طور پر کپاس کے فعال بیچ کا مطالبہ کیا انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر کپاس کے بیج تیار نہیں کیے جاتے ہیں خدارا فوری طور پر چین سے کپاس کے بیج درآمد کیے جائے اور چین کے اشتراک سے ایگریکلچر کے شعبے میں معاونت کی جائے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئندہ سیزن میں بھی کپاس کی فصل بڑھانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو پھر پاکستان سے کپاس خیرباد ہوجائے گی اور ہمیں درآمدی کپاس پر انحصار کرنا پڑے گا انہوں نیکپاس کی امدادی قیمت بھی فوری طور پر مقرر کرنے پر زور دیا۔

علاوہ ازیں ایپٹما پنجاب زون کے چیئرمین عبدالرحمان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ آئندہ 5 سالہ ٹیکسٹائل پالیسی کا فوری طور پر اعلان کیا جائے۔مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر کو بیرون ممالک سے خاصی مقدار میں برآمدی آرڈر ملیں ہیں اگر 5 سالہ ٹیکسٹائل پالیسی مرتب کی جائے تو اس کا فائدہ اٹھایا جاسکے گا مقامی مارکیٹوں میں یارن کے بھا اور مانگ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ ادائیگی میں تاخیر ہورہی ہے تاہم ٹیکسٹائل سیکٹر خصوصی طور پر ویلیو ایڈڈ سیکٹر اچھا جارہا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں