وفاقی وزرا

مسئلہ کشمیر پر وزارت خارجہ نے وزیراعظم کا ساتھ نہیں دیا، اسکی صلاحیت محدود ہے ،وفاقی وزرائ

اسلام آباد (عکس آن لائن) قومی اسمبلی میں وفاقی وزراء ڈاکٹر شیریں مزاری، فواد چوہدری ، چوہدری غلام سرور اور زرتاج گل نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر کو بہت آگے لے کر گئے ، لیکن ہمارے ادارے خصوصاً وزارت خارجہ نے پوری طرح وزیراعظم کو سپورٹ نہیں کیا، وزارت خارجہ کی صلاحیت محدود ہے ، ایسٹ تیمور کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو مسئلہ کشمیر کیوں نہیں ؟مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کا آبزرور مشن تعینات کیا جائے، اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر سے بھارتی افواج کو نکالا جائے اور عالمی عدالت انصاف اپنی رائے دے کہ بھارت نے کیوں مسئلہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کی،اقوام متحدہ یہ قرار دے چکی ہے کہ متنازعہ حصے کی حیثیت نہیں بدلی جاسکتی، بھارت پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے بیانات مت دے ،اس کے جہازوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا ہم نے دن کی روشنی میں جواب دیا، جو چائے پلائی تھی ابھی تک گرمائش محسوس ہوتی ہو گی، امن کی خواہش کو کمزوری مت سمجھا جائے ورنہ بھگتنا پڑے گا، امہ او آئی سی کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش ۔

اپوزیشن ارکان انجینئرخرم دستگیر، عبد القادر پٹیل،اسعد محمود، ناز بلوچ ، نصراللہ خان دریشک و دیگر نے کہا ہے کہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے، آج قیادت کا فقدان ہے، بھارت کو سفارتی سطح پر شکست دینا ہماری ترجیح ہونا چاہیے،عالمی مبصر مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیا جائے تا کہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دیکھایا جائے ، کسی حکومت کو کشمیر کے موقف پر پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں دیں گے، خارجہ پالیسی کی از سر نو ثالثی پر نظرثانی کرنی ہو گی، او آئی سی کو متحرک کرنا ہو گا، اگر حکومت کوئی عملی قدم اٹھائے تو اپوزیشن حکومت کا ساتھ دیں گے، کشمیر ایک مسلمہ بین الاقوامی قضیہ ہے، عالمی قوانین کے تحت مسئلہ حل کیا جائے، حکومت نے مفلوج اور نا اہل پالیسی سے بہت نقصان کر دیا ہے، ابھی بھی وقت ہے خارجہ پالیسی درست کریں، پاکستان کی خراب معیشت اور جمہوریت کو دیکھ کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا ہے،کشمیر کےلئے آخری دم تک لڑیں گے، ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کر کر ایسے قوانین بنوائے گئے ہیں کہ اب ان کو ڈومور کہنے کی ضرورت نہیں، معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا، ٹرمپ افغانستان سے بھاگنے کے چکر میں آپ کو ہاں ہاں کر رہا ہے، ہمیں اپنے فیصلوں پر اور معاملات پر نظرثانی کرنی ہو گی، مودی دنیا کے تمام ہندو اﺅںکا لیڈر نہیں ہے، وہ فاشسٹ لیڈر ہے، پاکستان کے تمام ہندو برادری کشمیریوں کے ساتھ ہے، اب بات تقریروں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے جبکہ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر قومی اسمبلی نے صف اول کا کردار ادا کیا اور گزشتہ دو سال میں بڑے اقدامات اٹھائے، کشمیر کا مقدمہ ہماری پارلیمانی سفارتکاری کا سب سے اہم نکتہ ہے جس سے ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا۔

مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے وزارت خارجہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر کو بہت آگے لے کر گئے ہیں، ہمارے ادارے خصوصاً وزارت خارجہ پوری طرح وزیراعظم کو سپورٹ نہیں کرسکی، وزارت خارجہ کو وزیراعظم کے ویژن کے مطابق بہت کچھ کرنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہاکہ ہمیں خواتین اور بچوں کے عالمی فورمز پر کشمیر کے مظالم اٹھانے چاہئیں ،جنرل اسمبلی سے 5 اگست کے بعد کی صورتحال پر ایڈوائزری قرارداد لینی چاہیے، اقوام متحدہ قرار دے چکی ہے کہ متنازع حصے کی حیثت نہیں بدلی جاسکتی، ہمیں مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی امن فورس کی تعیناتی کا مطالبہ کرنا چاہیے، ہماری طرف اقوام متحدہ کی امن فورس موجود ہے۔کشمیر کو اسلحہ سے پاک کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کررہی ہے، بھارت کشمیریوں پر جو سلوک کررہا ہے اس کی تشہیر کرنی چاہیے، اس حکومت نے دنیا سے منوایا ہے کہ مودی ظالم ہے، وزیراعظم عمران خان نے دنیا کے سامنے آر ایس ایس اور نازی ازم کی سوچ بے نقاب کی، وزیراعظم نے مودی کو جدید دور کا ہٹلر قرار دیا، مودی کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کشمیر کے معاملہ پر پوری طرح آگاہ نہیں ہے، کشمیر کے معاملہ پر سیاست مت کریں، بھارت چیپٹر 6 کے تحت اقوام متحدہ میں لے گیا تھا، کشمیر کی قراردادیں ایسٹ تیمور سے مماثلت رکھتی ہیں، ایسٹ تیمور حل ہو سکتا ہے تو کشمیر کیوں نہیں حل ہو سکتا، کشمیر کی قیادت کو مسئلہ کشمیر پر تسلیم کرنا چاہیے، ہماری حکومت یہ کر رہی ہے، اپوزیشن نے الزامات لگائے، وزیراعظم نواز شریف بھارت کے دورے کے دوران حریت لیڈروں سے نہیں ملے،ان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، وزیراعظم عمران خان نے جس طرح کشمیر کا مسئلہ اٹھایا پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا، ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کا آبزرور مشن تعینات کیا جائے، اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر سے افواج کو نکالا جائے، اقوام متحدہ کی رجسٹری بنائی جائے کہ کس کس کشمیری کو ووٹ کا حق ملے گا، وزیراعظم کشمیر ایشو کو بہت آگے لے گئے ہیں، اقوام متحدہ میں کشمیرایشو کو زیر بحث لانا بڑی کامیابی ہے، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو ہر فورم پر اجاگر کرنا چاہیے، پارلیمنٹیرین کو تیاری کے ساتھ وفود باہر بھیجنا چاہیے،

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مطالبہ کرنا چاہیے کہ آئی سی جے اپنی رائے دے کہ بھارت نے کیوں مسئلہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کی، یہ ضروری ہے پاکستان کو عذر کر کے اس کی جانب قدم اٹھانا چاہیے، فلسطین کے معاملے پر اس کی رائے آ چکی ہے۔سردار نصر اللہ دریشک نے کہا کہ کشمیر کے عوام پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں، اس وقت ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے، مفتی عبدالشکور نے کہا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، کشمیر ہماری شہ رگ ہے، مولانا فضل الرحمان 5فروری کو بڑا جلسہ کریں گے، وزیرخارجہ ایسی پالیسی بنائیں مسئلہ کشمیر اچھی طرح دنیا میں اجاگر ہو۔ علی گوہر نے کہا کہ مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور بھارت کا حصہ بنایا اور اس پر انہوں نے جشن منایا، وزیراعظم نے امریکہ کے دورے کے بعد پاکستان میں آ کر جشن منایا کہ کامیاب دورہ کیا، وزیراعظم عمران خان اور مودی کا کونسا مشترکہ ایجنڈا تھا کہ دونوں نے ایک ہی وقت میں جشن منایا، موجودہ حکومت نے کشمیر پر کوئی آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلائی، حکومت تنقید کرنے کے بجائے اور کشمیر کو بیچنے کے بجائے کشمیر پر کردار ادا کرے اور تحفظات دور کرے، کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے اور پاکستان کا حصہ بنے گا۔ ڈاکٹر شہناز بلوچ نے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ کو ہم سمجھ ہی نہیں رہے ہیں۔

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ سپیکر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، عوام کی خواہشات کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں کا فیصلہ کیا اور اضافہ کو مسترد کیا، کرونا وائرس 21ہزار سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں، وباءکو سنجیدگی سے لیا جائے، ایوان کو ایک کمیٹی ڈیکلیئر کیا جائے اور ظفر مرزا اور ماہرین کو بلایا جائے، چین میں پاکستان کے طالب علموں کے تحفظ کےلئے فیصلہ ہونا چاہیے۔ سپیکر نے کہا کہ وزارت خارجہ کا اجلاس میں متعلقہ حکام کو بلاتے ہیں،اور بریفنگ لے کر فیصلہ کریں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ مہنگائی پر بھی اجلاس کریں۔ سپیکر اسد نے کابینہ کی کمیٹی کو حکومت کی اصلاحات پر بریفنگ لیں گے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ بھارت نے کہا کہ پاکستان کو ایک سے سات دن میں ملیامیٹ کریں گے، بھارت کے وزیراعظم کو کہوں گا کہ ایسا مت کہیں آپ کے جہازوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا ہم نے دن کی روشنی میں جواب دیا، جو چائے پلائی تھی ابھی تک گرمائش محسوس ہوتی ہو گی، کشمیر پر پہلے بھی تین جنگیں لڑی ہیں، بھارت اگر امن نہیں چاہتا تو ہمیں لڑنا بھی آتا ہے، روزانہ چائے پلائیں گے، اس دفعہ کچھ اور ہی ملے گا، امن کی خواہش کو کمزوری مت سمجھا جائے ورنہ بھگتنا پڑے گا، ہندوستان میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے، کشمیر کے علاوہ ان کےلئے بھی ہمارا دل رورہا ہے، کشمیر کے علاوہ ان کےلئے بھی ہمارا دل رو رہا ہے، قائداعظم بڑے لیڈر تھے، انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ ہندو بالادستی ہو گی تو آپ سے کیسا سلوک ہو گا، بھارت میں فاشسٹ حکومت ہے، کہتے ہیں کہ بھاشا سے مسلمان نہیں سمجھیں گے تو گولی سے تو سمجھیں گے، پاکستان میں انتہاءپسند جماعتوں کو ہمیشہ مسترد کیا۔200دن ہو گئے ہیں کشمیر میں کرفیو ہے، سیاسی قیادت گرفتار ہے، انٹرنیٹ سروس بند ہے، حبیب جالب اور فیض احمد فیض کو گایا جا رہا ہے، کشمیر پر سب ایک ہیں،

خواجہ آصف نے غیر ضروری تنقید کی، وہ وزیراعظم کے امیدوار بنے ہوئے ہیں اور اپنی پروفائل بنا رہے ہیں، ہم جواب نہیں دیں گے، وزیراعظم عمران خان ہی رہے گا کشمیر میں قربانیاں دینے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، کشمیر کو انشاءاللہ جلد آزادی ملے گی، کشمیر پر پوری قوم اکٹھی ہے۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ گزشتہ نصف صدی سے یک جہتی کشمیر کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن خدا جانے کب تک ہوتا رہے گا، جن سے ثالثی مانگ رہے ہیں انہوں نے یہ تنازعہ ہمارے درمیان چھوڑ دیا تھا تا کہ ہمیشہ جنگ میں الجھے رہیں، مسئلہ کشمیر اتفاقیہ نہیں تھا، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کا مقدمہ جس طرح دنیا میں پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی، آج ہم یوم یکجہتی کشمیر کے دوران بات کرتے ہوئے دلبرداشتہ ہوں، ڈیڑھ سال میں بھارت کے پاس کون سی طاقت آ گئی کہ انہوں نے جہاز ہماری سرحدوں میں داخل کرنا شروع کئے اور مقبوضہ کشمیر کو ضم کرنے کا اعلان کیا، وہ اگر ثالثی کےلئے مخلص ہوتے تو یہ مسئلہ نہ بنتا، ٹرمپ ہمارے مسئلے کا حل نہیں نکالے گا، خود بھی زبردستی ثالث بن گیا کہ سعودی عرب اور ایران میں صلح کرائیں گے، اس دوران ایرانی جنرل کو شہید کیا گیا۔ وہ کیا سوچ تھی کہ آپ نے کہا خدا کرے مودی دوبارہ منتخب ہو جائے، اس نے کشمیر کی آزادی صلب کرلی، مسلمانوں کے خلاف قوانین بنائے جا رہے ہیں، ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کر کر ایسے قوانین بنوائے کہ ان کو ڈومور کہنے کی ضرورت نہیں، اب از خود معلومات دیں گے، آٹو گیئر میں لگا دیا، معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا، یہ ہمارے خیر خواہ نہیں ہیں، ہر پاکستانی کشمیریوں کے دکھ درد میں شریک ہے، وہاں جنازہ اٹھتا ہے تو آنسو یہاں بھی گرتے ہیں،

ٹرمپ افغانستان سے بھاگنے کے چکر میں آپ کو ہاں ہاں کر رہا ہے، کسی عالمی فورم پر وزیراعظم نے نہیں کہا کہ بھارت دہشت گرد ہے، سعودی عرب میں کشمیر کی آزادی کےلئے کبھی دعا نہیں ہوئی۔ کشور زہرا نے کہا کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں، اس کےلئے حکمت عملی کی ضرورت ہے، امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ کشمیر پر سب کی رائے ایک ہونی چاہیے، ہمیں کچھ فیصلوں پر اور معاملات پر نظرثانی کرنی ہو گی، جن پر ہم نے اعتماد کیا، وہ مودی کے جلسے میں شرکت کر کے مودی سے دو قدم آگے نکل گئے، ہم جنگ کی حمایت نہیں کرتے لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر پاکستان کےلئے سب لڑیں گے۔ نورین فاروق نے کہا کہ کشمیر پر ظلم کی داستان رقم کی گئی جس کی مثال پوری صدی میں نہیں ملتی، تارکین وطن دنیا کی وتجہ کشمیر پر مرکوز کر نے کےلئے کردار ادا کریں۔ کھل داس نے کہا کہ مودی دنیا کے تمام ہندو کا لیڈر نہیں ہے، وہ فاشسٹ لیڈر ہے، میرا لیڈر قائداعظم محمد علی جناح ہے، سیاسی لیڈر نواز شریف ہے، مودی کے اقدامات پر تمام ہندو کو ساتھ نہ ملایا جائے، پاکستان کے تمام ہندو برادری مودی کے اقدامات کی مخالف ہے، کشمیر کے ساتھ ہیں، پاکستان کی اقلیتیں ملک کی وفادار ہیں، کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ وفاقی وزیر ایوی ایشن چوہدری غلام سرور نے کہا کہ کشمیر کا ایشو بھارت کا وزیراعظم خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا،

اقوام متحدہ نے استصواب رائے کا فیصلہ کیا تھا، ساری دنیا میں مسلمانوں کا استحصال ہو رہا ہے، اس منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی فوج داخل کی گئی، کشمیر ایشو دنیا بھر میں اجاگر کیا تو یہاں دھرنا شروع ہو گیا، امہ او آئی سی کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کرے، ایسٹ تیمور کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو کشمیر کا مسئلہ کیوں نہیں حل ہو سکتا، اس کےلئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ناز بلوچ نے کہا کہ اب بات تقریروں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے، حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے، آج قیادت کا فقدان ہے، بھارت کو سفارتی سطح پر شکست دینا ہماری ترجیح ہونا چاہیے۔ سیف الرحمان نے کہا کہ بھارت ظالم کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے۔ اسعد محمود نے کہا کہ مسئلہ پر حکومت پر تحفظات ہیںان تحقیقات کا ذکر نہیں کروں گا تا کہ کشمیریوں کو یک جہتی کا پیغام جائے، پاکستان نے بطور وکیل کشمیریوں کی سفارتی اور سیاسی وکالت کےلئے پیش کیا، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ضم کرنے کے اقدامات کئے لیکن ہماری حکومت نے خاموش احتجاج کے علاوہ کچھ نہیں کیا، کشمیر پر یکجہتی کو ایک وزیر نے ختم کرنے کی کوشش کی، حکومت خواب میں بھی آزادی مارچ کو اب یاد رکھتی ہے، پورا کشمیر آج جیل کا منظر پیش کر رہا ہے، بھارت کے غاصبانہ قبضہ کی مذمت کرتے ہیں، استصواب رائے کا مطالبہ کرتا ہے، عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں،

عالمی مبصر مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیا جائے۔ تا کہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دیکھایا جائے ، کسی حکومت کو کشمیر کے موقف پر پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں دیں گے، خارجہ پالیسی از سر نو ثالثی پر نظرثانی کرنی ہو گی، او آئی سی کو متحرک کرنا ہو گا۔ سپیکر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر قومی اسمبلی نے صف اول کا کردار ادا کیا اور گزشتہ دو سال میں بڑے اقدامات کئے، کشمیر ہماری قومی سلامتی کا اہم مسئلہ ہے، ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انجینئر خرم دستگیر نے کہا کہ کشمیریوں کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، ان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سپورٹ پر حکومت کی پالیسی کا حصہ رہے گی، اگر حکومت کوئی عملی قدم اٹھائے تو اپوزیشن حکومت کا ساتھ دیں گے، وزیراعظم نے انٹرویو میں کہا کہ مودی کی حکومت کشمیر کے حل کےلئے بہترین ممکنہ آپشن ہو سکتا ہے، اس طرح ہم ان کا ساتھ کیسے دیں، حکومت کنفیوژن کا شکار ہے، حکومت کی دوغلی سوچ کی کیسے حمایت کریں، کشمیر ایک مسلمہ بین الاقوامی قضیہ ہے، عالمی قوانین کے تحت مسئلہ حل کیا جائے، پوری دنیا سے کشمیر کے عالمی تنازعہ کے حوالے سے ایک لفظ نہیں آیا، ایل او سی کے دونوں اطراف کشمیری مایوس ہیں،21کروڑ پاکستانی پریشان ہیں، حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، حکومت نے مفلوج اور نا اہل پالیسی سے بہت نقصان کر دیا ہے،

ابھی بھی وقت ہے خارجہ پالیسی درست کریں، پاکستان کی خراب معیشت اور جمہوریت کو دیکھ کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا ہے،کشمیر کےلئے آخری دم تک لڑیں گے۔ وزیر موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا کہ اپوزیشن آج بھی لب و لہجہ ان کو کسی کی بے عزت کرنے کا ہے، کشمیر پر بھی یہ یکجا نہیں کرتے، آپ کی نفرت سے کشمیریوں کو اچھا پیغام نہیں جاتا، پاک فوج اور سول حکومت پہلی دفعہ ایک پیج پر ہے، آپ پیغام دیتے تھے کہ فوج ہمیں کشمیر پر بات نہیں کرنے دیتی، ہم نے مودی کو شادیوں کے چاول نہیں کھلائے اور ساڑھیاں نہیں دیں، کشمیر کا معاملہ پی ٹی آئی کا صرف نہیں ہے بلکہ قومی مسئلہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں