نگران وزیراعظم

لیکشن کرانا آئینی ضرورت ہے مگر اس کے نتیجے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا،وزیر اعظم

کوئٹہ (عکس آن لائن )نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ الیکشن کرانا آئینی ضرورت ہے مگر اس کے نتیجے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا،الیکشن صاف شفاف ہوں گے، الیکشن کمیشن الیکشن کرائیگا،نگراں حکومت پر داغ لگنے کی بات مناسب نہیں،

سیاسی جماعتوں کا بیانیہ سچ ہو سکتا ہے اور نہیں بھی، فیصلہ عوام کو کرنے دیں، جنہیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملی وہ کون سا داغ لے کر گئے،جماعتوں کو اپنے ووٹرز کو کچھ نہ کچھ تو کہنا ہے، لسبیلہ میں جام کے مقابلے میں اگر غیر معروف آدمی الیکشن جیت جائے تو یہ بڑی بات ہو گی، الیکشن کے حوالے سے سیکیورٹی انشاء اللّٰہ اچھی ہوجائے گی۔وہ منگل کو یہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوکررہے تھے۔

اس موقع پر نگران وزیراعلیٰ میر علی مردان خان ڈومکی اور وفاقی نگران وزیراطلاعات ونشریات مرتضیٰ سولنگی بھی موجود تھے۔ بلوچستان میں انتخابات کے دوران سکیورٹی کی صورتحال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ سکیورٹی کی صورتحال ٹھیک ہو جائے گی، الیکشن کمیشن عام انتخابات کرائے گا۔ سیاسی جماعتیں دعوے کرتی رہتی ہیں ، عوام فیصلہ کریں گے کہ ان دعوئوں میں کتنا وزن ہے۔

الیکشن میں مختلف قسم کے بیانیے چلتے ہیں جو غلط اور صحیح ہو سکتے ہیں۔ نگران حکومت کا کام معمول کے حکومتی معاملات چلانا ہے۔عام انتخابات کیبعد کے منظر نامے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ عام انتخابات کاانعقاد ایک آئینی ضرورت ہے اس کے نتائج کیاہوں گے یہ کبھی نہیں سوچاجاتا ، نتیجہ جو بھی ہو عام انتخابات کا انعقاد تو ہونا ہے۔

قوم پرست جماعتوں کے تحفظات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ قوم پرست جماعتوں کا مخصوص حلقہ اثر ہے جس میں وہ کبھی جیت جاتے ہیں اور کبھی ہار جاتیہیں۔ قوم پرست سمجھتے ہیں کہ چیزوں کو ان کی نظر سے دیکھاجائے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت کی نظر سے چیزوں کو پرکھا جائے۔

انتخابی ماحول میں الزامات معمول کی بات ہے۔بلوچستان میں مگسی ، جام ،ڈومکی اور دیگر سیاسی خاندان قیام پاکستان کے قبل سے سیاست میں فعال کرداراداکررہے ہیں۔ نگران وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ عام انتخابات صاف شفاف ہوں گے۔ بلوچستان میں صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ مختلف انتخابی حلقوں میں پیش گوئی کرنا کسی حد تک ممکن ہوتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ پنجرہ پل فروری کے اختتام یا مارچ کے اوائل تک آپریشنل ہوگا۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ غیر قانونی تارکین کو واپس وطن بھیجا رہا ہے ، جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ یہ کسی طرح واپس چلے جائیں، وہ بھی اس عمل کے ناقدین میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل میں کسے ووٹ ڈالنے کا حق ہو گا اور کسے نہیں، یہ فیصلے الیکشن کمیشن نے کرنے ہیں اور ہمارا اس سے تعلق نہیں۔کوئٹہ شہر میں گیس سپلائی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کو گیس سپلائی کے حوالے سے استثنیٰ دیا گیا ہے کیونکہ سردیوں کے موسم میں گیس کا یہاں بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ باقی صوبوں کے عوام کے لئے گیس کی سپلائی کم کی گئی ہے۔

سی پیک کے مغربی روٹ کے حوالے سے سوا ل کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ نگران حکومت کے پاس نئے منصوبے شروع کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے، اس سے نئے منصوبوں کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، اس کے باوجود میں نے کوئٹہ خضدار دو رویہ کیرج وے کے لئے سعودی اور اماراتی فنڈزسے فنڈز حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ میری رائے میں پرانے منصوبوں میں یہ سب سے اہم منصوبہ ہے۔

امید ہے فروری تک اس حوالے سے اچھی خبر آئیگی۔ ایک اور سوال کیجواب میں وزیراعظم نے کہا کہ غیر مقامیوں کی طرف سے بلوچستان کے ڈومیسائل کی بنیاد پر ملازمتیں حاصل کرنے کی باتیں پرانی ہو چکی ہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ڈومیسائل پر بھی اعتراضات ہیں۔ 1970 کے بعد اگر کسی کا ڈومیسائل غلط بنا ہے تو اس کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے گی تاہم دنیا اب آگے نکل چکی ہے اور ہم ابھی تک ان چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔

ہمیں اپنے بچوں کو محنت کی تلقین کرنی چاہیے، انہیں ہنر سکھانے چاہئیں۔مواقع موجود ہیں،ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ ” وکٹم کارڈ ” بہت کھیل لیا، اب اس سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کسی کو نوکریاں نہیں بیچنے دیں گے۔ دس دس، بیس بیس لاکھ روپے میں نوکریاں بیچی جارہی تھیں۔ ڈومیسائل پر تو لوگ بات کرتیہیں لیکن اس پر بات نہیں کی جاتی۔

یہ بھرتیاں جن کے لئے بااثر افراد نے پیسے لئے تھے اور ا?ج اربوں روپیکی جائیدادوں کے مالک ہیں ، وہ ہم نے کینسل کردی ہیں۔ ایسے لوگوں کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ زیارت سے گوادر تک ہر جگہ نوکریوں کے ریٹ مقرر تھے، کوئی اسے نہیں روک رہاتھا۔ہم نے آکے یہ سلسلہ ختم کیا ، اب کسی کو نوکریاں نہیں بیچنے دیں گے۔ بلوچستان کی محرومیوں کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل پرانے اور پیچیدہ نوعیت کے ہیں جو گورننس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور جس میں سیاستدانوں اور بیورو کریسی کاکردار ہے۔

صوبائی حکومت نے سول سروسز کے لوگ مانگے تھے جو ہم نے بھجوا دیئے ہیں تاکہ میرٹ پر آفیسرز تعینات ہوں اور ایڈمنسٹریشن بہتر ہو۔سمگلنگ اور ان سے منسلک لوگوں کے حوالے سے سماج پر جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانا بہت بڑا چیلنج تھا۔ اشرافیہ اور کرپٹ عناصر کا ایک الائنس تھا جس نے پورے صوبے کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا اور اس سے قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔

ہم جو چیزیں بہتر کر سکتے تھے، کی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ سرفرازبگٹی اپنی سیاسی وابستگی کے حوالے سے خود جواب دے سکتے ہیں۔ میراکسی سیاسی جماعت میں شمولیت کاارادہ نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں