فلسطین

فلسطین، بالآخر گلاب بندوقوں پر فتح حاصل کریں گے، چینی میڈ یا

بیجنگ (عکس آن لائن) 22 مئی کو ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں گے۔دنیا نے دیکھا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران جیسے جیسے فلسطین- اسرائیل تنازع شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، زیادہ سے زیادہ ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا عالمی برادری کی مشترکہ خواہش ہے اور امریکہ ، اسرائیل اور دیگر ممالک کی جانب سے چاہے کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ کھڑی کی جائیں، بین الاقوامی برادری “دو ریاستی حل” کی حمایت میں اتفاق رائے پر پہنچ گئی ہے، جس سے غزہ میں جنگ بندی اور لڑائی کے خاتمے نیز فلسطین -اسرائیل مسئلے کے حتمی حل کی امید بھی بڑھ گئی ہے۔

22 مئی کو ناروے کے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ناروے ،فلسطین کی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن کا حصول ممکن نہیں۔ ناروے کے اس اقدام سے دوسرے ممالک کو ایک ‘مضبوط’ اشارہ ملا ہے جس میں ان سے ‘ناروے کے نقش قدم پر چلنے’ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسی روز ڈبلن میں آئرش وزیر اعظم نے کہا کہ آئرلینڈ کا ماننا ہے کہ مستقل امن صرف آزاد لوگوں کی آزادانہ مرضی کی بنیاد پر ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ غزہ میں فلسطینی عوام ایک ناقابل تصور اور بلاجواز انسانی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور دو ریاستی حل نسلی تشدد، انتقام اور نفرت کے چکر کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے.

اسی روز میڈرڈ میں ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی وجوہات کو تین الفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے: امن، انصاف اور یکجہتی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف نہیں اور نہ ہی یہ حماس کی حمایت کرنا ہے، یہ تسلیم کرنا کسی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ امن اور بقائے باہمی کی حمایت میں ہے” ۔

جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، دونوں فریق ہار جاتے ہیں۔ ایسا شخص مت بنو جو دورسے آگ کو دیکھتا ہے اور واہ واہ کرتا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان طویل تنازع اور انسانی المیے نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ جنگ میں جو بھی مارا جاتا ہے وہ انسانیت کے لیے ایک رستا ہوا زخم ہے۔ جنگ بالآخر پوری دنیا کو تباہ کر دے گی کیونکہ کوئی جزیرہ ایسا نہیں ہے جو سمندر کے طوفانوں سے بچ سکے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے، میں انسانی تاریخ کے ایک مشہور منظر کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا:سال 1914 ، کرسمس کا دن اور پہلی جنگ عظیم میں فرانسیسی میدان جنگ کا جادوئی منظر نظروں کے سامنے ہے : جنگی لائن کے دونوں اطراف کے مرکزی اور اتحادی ممالک کے فوجی اپنے ہتھیار ڈال کر خندقوں سے باہر نکل آئے وہ کرسمس منانے اور تحائف کا تبادلہ کرنے کے لیے “نو مینز لینڈ” کی طرف چل پڑے،یہ منظر بعد میں “کرسمس ٹروس” کے نام سے مشہور ہو گیا۔

کیا یہ انسانیت کا نور ہے جو آخر کار جنگ کے ظلم میں دفن نہیں ہوا ؟ ہاں یا نہیں، وہ نوجوان جو کبھی نفرت سے متاثر تھے، جنگ کے لیے پرجوش تھے اور میدان جنگ کی سمت دوڑ تے تھے، آخر کار سمجھ گئے کہ ضروری نہیں ہے کہ جنگ سے نفرت کرنے سے جنگ کو روکا جا سکے، لیکن ہاں جنگ کی حوصلہ افزائی کرنے سے جنگ ضرور برپا ہوگی کیونکہ نفرت کبھی فتح اور خوشی نہیں لا سکتی۔جب کوئی جنگ کے لیے اکساتا ہے، تو ہر کوئی سوچتا ہے کہ وہ ایک عظیم بادشاہ ہے، اور ایک بار جب جنگ شروع ہو جائے ، تو پھر جنگ کی آگ میں ہر کوئی سپاہی ہے.

نیو میڈیا نے دنیا بھر کے لوگوں کو جنگ کے ظلم کو زیادہ حقیقی اور قریبی نظر سے دیکھنے کا موقع دیا ہے، لہذا لوگوں نے صحیح اور غلط فیصلے کرنا ، حمایت یا مخالفت کرنا چھوڑ دیا ،بلکہ مل کر امن کے لیے کام کرنا شروع کر دیا ہے اور بین الاقوامی برادری نے “دو ریاستی حل” کی حمایت میں اتفاق رائے تک پہنچنا شروع کر دیا ہے.

موجودہ فلسطین- اسرائیل تنازع نے لوگوں کو جنگ کی بھڑکتی آگ،لاتعداد روتی ہوئی ماؤں اور خون سے بھرے میدانوں پر ان گنت معصوم بچوں کی لاشیں دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ نفرت کو بالائے طاق رکھیں، جنگ و جدل بند کریں، قتل و غارت اور خونریزی بند کریں۔ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ جنگ کے دونوں فریق جلد ہی ہتھیار ڈال دیں گے، پھول اٹھا کر ایک دوسرے کی طرف چلیں گے، بالکل اسی طرح جیسے فرانس کے میدان جنگ میں حریف فوجیوں نے مل کر امن کا جشن منایا تھا۔

اب تک تقریبا 150 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ممالک نے دو ریاستی حل کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازع میں دشمنی کو روکنے اور امن کو فروغ دینے کے عمل میں ، چین نے ہمیشہ تعمیری کردار ادا کیا ہے اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے اور فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام فریقین کی مشترکہ کوششوں سے فلسطین اسرائیل تنازع کا حل اور مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام بہت قریب ہے ۔
گلاب بندوقوں پر فتح حاصل کریں گے، جب تک ہم اس یقین و ایمان پر قائم رہیں گے۔