قرضے معاف

عالمی مالیاتی ادارے کورونا وباء سے تباہ حال جنوبی ایشیائی ممالک کے قرضے معاف کریں، سارک چیمبر

لاہور (عکس آن لائن)سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے عالمی بینک ، آئی ایم ایف ، جی ۔20 اور ایشیائی ترقیاتی بینک پر زور دیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیائی ممالک کے قرضے معاف کریں کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی معیشتیں بری طرح سے تباہ ہو چکی ہیں۔

سارک چیمبر کے نامزد صدر افتخار علی ملک نے مسلم خان بنوری کی قیادت میں برآمد کنندگان کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک نے جنوبی ایشیا کے غربت سے دوچار ممالک کی نازک معیشتوں پر کورونا وئرس کے بڑھتے ہوئے اثرات کی دردناک منظر کشی کی ہے جو یہ جاننے کیلئے کافی ہے کہ ان کا جی ڈی پی کس برے طریقے سے متاثر ہو گا جس کے نتیجے میں ناقابل تلافی بھاری مالی نقصانات کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے ان ممالک کے قرضے معاف کریں جو اپنے محدود وسائل اور انفراسٹرکچر کے ساتھ اس وباء اور اس کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔

جنوبی ایشیائی ممالک کی معیشت کے بارے میں عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ انتہائی تشویش ناک ہے جس میں اس نے پیش گوئی کی ہے کہ آٹھ ممالک پر مشتمل سارک خطہ کی معاشی نمو اس سال 1.8 فیصد سے 2.8 فیصد رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات نے پورے جنوبی ایشیاء میں سپلائی چین کو درہم برہم کردیا ہے جہاں اب تک 13ہزار سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں جو ابھی تک دنیا کے بہت سے حصوں سے کم ہیں۔ بھارت میں 1.3 ارب آبادی کے لاک ڈاؤن سے کئی ملین افراد بے روزگار ہو گئے ہیں، بڑے اور چھوٹے کاروبار تباہ جبکہ بیروزگار مزدور شہروں سے دیہات کی طرف جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

افتخار ملک نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو اضافی قرضے، پرانے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ، مالیاتی سہولت اور مالی امداد فراہم کی جانی چاہئے تاکہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے قابل ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں ہیلتھ کیئر کا نظام انتہائی کمزور ہے اور یہ ممالک اس وباء میں شدت کی صورت میں اس سے نمٹنے کیلئے مکمل تیار نہیں ہیں اس لئے اگر اس وباء میں تیزی آئی تو تو انہیں سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے سارک ممالک پر زور دیا کہ وہ کورونا کیسز کی تلاش اور ہسپتالوں کی تیاری کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کریں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک اپنی بڑی نوجوان آبادی اور جینرک ڈرگ انڈسٹری کی بنا پر اس وباء کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا امید کی جا رہی ہے کہ اگر یہ وائرس فلو کی طرز پر چلتا ہے تو مئی اور جون کی شدید گرمی میں اس کی شدت کم ہو جائے گی تاہم یہ جولائی اور اگست میں دوبارہ پھیل سکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں