نیویارک (عکس آن لائن) سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کی گہرائی میں یہ وائرس موجود ہوسکتا ہے۔جریدے جرنل سیل ریسرچ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر اسی وجہ سے کچھ مریضوں میں صحتیابی کے بعد اس وائرس کی دوبارہ تشخیص ہوتی ہے۔
چین کی آرمی میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس سے پہلی بار پھیپھڑوں میں اس وائرس کے ذرات موجود رہنے کے شواہد ملتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے مریض میں، جس کے 3 مسلسل ٹیسٹ نیگیٹو آئے تھے۔تحقیق کے نتائج ایک 78 سالہ مریضہ کے پوسٹمارٹم سے مرتب کیے گئے جو کورونا وائرس کا شکار ہوئی تھیں اور ان کا علاج ہوا۔علاج کے بعد وہ صحتیاب ہوگئیں اور 3 بار ٹیسٹوں میں نیگیٹو نتائج سامنے آئے تھے مگر ایک دن بعد اچانک حرکت قلب بند ہونے سے ان کی موت واقع ہوگئی۔موت کے بعد پوسٹمارٹم میں اہم اعضا جیسے دل، جگر اور جلد پر وائرس کے آثار نہیں ملے مگر اس کی کچھ اقسام پھیپھڑوں کی گہرائی میں دریافت کی گئیں۔یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب جنوبی کوریا اور چین میں اس وائرس سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد کے دوبارہ ٹیسٹوں میں اس کی تصدیق ہوگئی تھی۔درحقیقت کچھ افراد میں تو ابتدائی نیگیٹو ٹیسٹ کے 2 ماہ بعد وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
وائرس کے شکار افراد میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہونے پر کافی کام کیا جارہا ہے کیونکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ لاک ڈاؤن کے بعد ممالک کو کھولنے کی کنجی ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ایسے شواہد موجود نہیں کہ ایک بار وائرس کا شکار ہونے کے بعد متاثرہ فرد دوبارہ اس کا شکار نہیں ہوسکتا۔اس چینی تحقیق میں شامل ٹم کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے انفیکشن کے بارے میں فوری طور پر جاننے کی ضرورت ہے۔اس سے قبل مارچ میں امریکا کے جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہاسپٹل میں کورونا وائرس کے ایک مریض کے پھیپھڑوں کی ایک ویڈیو یوٹیوب پر شیئر کی گئی تھی جس میں پھیپھڑوں کے صحت مند ٹشوز کو نیلے جبکہ وائرس سے متاثر ٹشوز کو زرد رنگ میں دکھایا گیا ہے۔ہسپتال کے چھاتی کی سرجری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر کیتھ مورٹمین نے بتایا پھیپھڑوں کے وائرس سے متاثرہ اور صحت مند ٹشوز کا امتزاج چونکا دینے والا ہے، درحقیقت اس کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھنے کے لیے نام کے ساتھ طبی ڈگری کی ضرورت نہیں کہ پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان کسی ایک حصے تک محدود نہیں، درحقیقت دونوں پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر نقصان پہنچنے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔اس سے قبل مارچ کے وسط میں ہاکنگ کانگ میں طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑے کمزوری کا شکار ہوسکتے ہیں اور کچھ افراد کو تیز چلنے پر سانس پھولنے کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ ہاسپٹل اتھارٹی نے یہ نتیجہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے ابتدائی مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد نکالا۔ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ 12 میں سے 2 سے تین مریضوں کے پھیپھڑوں کی گنجائش میں تبدیلیاں آئیں۔ہسپتال کے انفیکشیز ڈیزیز سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اوئن تسانگ تک ین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ان افراد کا سانس کچھ تیز چلنے پر پھول جاتا ہے ، مرض سے مکمل نجات کے بعد کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 20 سے 30 فیصد کمی آسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرض کے طویل المعیاد اثرات کا تعین کرنا ابھی تو قبل از وقت ہے مگر 9 مریضوں کے پھیپھڑوں کے اسکین میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کے مزید ٹیسٹ کرکے تعین کیا جائے گا ان کے پھیپھڑوں کے افعال اب کس حد تک کام کررہے ہیں جبکہ پھیپھڑوں کی مضبوطی کے لیے فزیوتھراپی کا انتظام بھی کیا جائیگا۔ڈاکٹر نے بتایا کہ صحت یاب مریض مختلف ورزشوں جیسے سوئمنگ سے اپنے پھیپھڑوں کو بتدریج مکمل صحت یاب ہونے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔بعد ازاں چین میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر مرض کی شدت زیادہ ہو تو مریضوں کے پھیپھڑوں میں عموماً سیال جمنے لگتا ہے جو نمونیا کے کیسز سے ملتا جلتا نظر آتا ہے اور اسے سی ٹی اسکین کے ذریعے پکڑا جاسکتا ہے، جس میں پھیپھڑوں پر سفید نشان نظر آتے ہیں، جسے ڈاکٹر گراؤنڈ گلاس کہتے ہیں۔ووہان (چین کا وہ شہر جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا)کے ٹونگ جی ہاسپٹل کی تحقیق میں سیکڑوں مریضوں کے سینے کے سی ٹی اسکینز کا جائزہ لیا گیا۔جریدے جرنل ریڈیولوجی میں شائع تحقیق کے مطابق تجزیے سے گراؤنڈ گلاس انفیکشن کے بارے میں علم ہوا، یعنی پھیپھڑوں میں ہوا کی گزرگاہیں سیال بھر گئیں جبکہ پھیپھڑوں کے ننھے خانوں (جو آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ مالیکیولز کا تبادلہ دوران خون سے کرتے ہیں)، کو نقصان پہنچتا ہے۔یہ گراؤنڈ گلاس سی ٹی اسکین میں دھندلے قطرے کی شکل میں نظر آتے ہیں، جو مرض بدتر ہونے پر شکل بدلتا ہے، جیسا آپ نیچے سی ٹی اسکین میں چھوٹے زرد تیروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
یہ سیال صرف کورونا وائرس کے لیے مخصوص نہیں بلکہ متعدد اقسام کے انفیکشنز اور پھیپھڑوں کے امراض میں بھی دریافت ہوتا ہے، مگر کووڈ 19 میں اس کی ساخت اور تقسیم مخصوص ہوتی ہے۔اس تحقیق کے دوران ایک ہزار سے زائد مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور دریافت کیا کہ ان کے سینے کا سی ٹی اسکین لیب ٹیسٹ کے مقابلے میں کووڈ 19 کی تشخیص کا موثر ترین ذریعہ ہے۔کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیاں نمونیا کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں سانس لینے میں مشکل، جسم میں آکسیجن کی سطح میں کمی اور کھانسی جیسی شکایات ہوتی ہیں، بتدریج پھیپھڑے دوران خون سے مناسب مقدار میں آکسیجن جذب کرنے کے قابل نہیں رہتے۔