چیف جسٹس

سپریم کورٹ پروسیجر کیس:نظر ثانی اور اپیل دونوں مختلف اختیار ہیں،چیف جسٹس

اسلام آباد(عکس آن لائن)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے سپریم کورٹ ججمنٹ اینڈ ریوو آرڈر سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیئے ہیں کہ نظر ثانی اور اپیل میں بنیادی فرق ہے ،

نظر ثانی کا دائرہ کار کیسے بڑھایا جانا چاہیے ،درخواست گزاروں کا موقف ہے نظر ثانی کا دائرہ کار بڑھائیں لیکن اس کو اپیل میں تبدیل نہ کریں، درخواست گزاروں کا مسئلہ دائرہ کار بڑھانے کے طریقے کار سے ہے ،حکومت نے نظرثانی کو دوبارہ سماعت جیسا بنانا ہے تو ضرور کریں،اس کے لیے آپ درست قانونی راستہ اختیار کرنا ہو گا،نظر ثانی اور اپیل دونوں مختلف اختیار ہیں۔

جمعرات کو عدالت عظمی میں معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے کہ 1973 کے آئین میں حقوق کی انفورسمنٹ کے لیے آرٹیکل 184 تین کے اوریجنل اختیارات کو بڑھایا گیا،آرٹیکل 184 تین کے تحت پہلہ فیصلہ منظور الٰہی کیس میں آیا ،

منظور الٰہی کے بھائیوں نے سندھ اور بلوچستان میں بھی درخواستیں دائر کیں،گرفتاری کے بعد منظور الٰہی کو قبائلی علاقہ میں لے جایا گیا،میں فیصلہ پڑھ کر بتاو گا کہ گزشتہ سالوں میں 184(3) کا دائرہ اختیار کیسے بڑھتا گیا، جسٹس اعجازالاحسن نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ 184 (3) کے ساتھ نظر ثانی کا دائرہ اختیار کیوں اور کیسے بڑھنا چاہیے؟

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا آپ درخواست گزار کا موقف بھی زرا سمجھیں،درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نے کیوں کیا،درخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سے کریں ،عدالت بھی مانتی ہے کہ دائرہ کار وسیع ہوں لیکن اس میں وجوہات بھی تو شامل کریں،ورنہ تو عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب کرنے والی ہی بات ہے ،جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر کہا کہ مجھے سمجھنے میں دشواری ہے کے 184 (3) میں فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کو دیگر فیصلوں سے فرق کیسے کیا گیا؟

میرے لیے تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کا پیمانہ ایک ہے،حکومت جو قانون لے کر آئی ہے اس میں الگ الگ پیمانہ ہیں، سپریم کورٹ کے جتنے بھی فیصلے ہیں ان میں نظر ثانی کا پیمانہ ایک ہے،آپ جو قانون لائے ہیں اس میں 184/3 کے تحت اپیل کے 2 درجے بنا دئیے ہیں ،یہ قانون بذات خود امتیازی حیثیت رکھتا ہے، جب سب فیصلوں پر نظر ثانی میں سبجیکٹ میٹر ایک ہی ہے تو سکوپ الگ کیسے ہوسکتا ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ میں نے یہ پوائنٹس نوٹ کر لیے ہیں ان پر بھی معاونت کروں گا،وقت کے ساتھ 184 (3) کا ہی دائرہ کار وسیع ہوا اس پر نظر ثانی کا بھی ہونا چاہیے تھا،1859 کے ایکٹ میں فیصلے میں غلطی کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کیلئے بھی نظرثانی کا ذکر ہے،جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر پوچھا کہ آپ چیزوں کو کاٹ کر الگ کیسے کر سکتے ہیں؟

اس کی نوعیت الگ ہے دوسرے کی الگ ہے؟آخر میں کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہلائے گا،نظر ثانی میں عدالت کے سامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا،نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے،نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے، عدالت نے مختلف ادوار میں 184(3) کے دائرہ اختیار کو مختلف اندار میں سمجھا ہے،

امریکی سپریم کورٹ نے بھی اس کو مختلف ادوار میں الگ طرح سے پرکھا،ہوسکتا ہے آج سے دو ماہ،6 سال یا 20 سال بعد یہ عدالت بھی 184(3) کے اختیار کو اور طرح سے سمجھے،ایسے میں آپ کے اس ایکٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟184/3 کا دائرہ کار اختیار مختلف ادوار میں مختلف سمجھا ہے،ہو سکتا ہے مستقبل میں اس کو کسی اور انداز میں سمجھا جائے.بعد ازاں کیس کی سماعت جامعہ 16 جون تک کیلئے ملتوی کر دی ہے(

اپنا تبصرہ بھیجیں