اسلام آباد(عکس آن لائن) سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کر دیا،جسٹس مسرت حلالی کا اکثریتی فیصلے سے اختلاف،عدالت عظمی کی جانب سے 5 ایک سے فیصلہ سنایا گیا جس میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں زیر سماعت ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں سنائیں گی جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا اور لارجز بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر فریقین کو نوٹس بھی جاری کر دیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بنچ کا حصہ تھے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس معاملے پر فیصلہ جاری کریں گے جوکہ تھوڑی دیر میں سنایا جائے گا۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراضات پر بنچ سے الگ ہونے سے انکار کیا، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ وکلا جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ پڑھ لیں، یہ جج کی مرضی ہے کہ بنچ کا حصہ رہے یا سننے سے معذرت کرے، جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ کیس سننے سے انکا کا فیصلہ جج کی صوابدید ہے، میں خود کو بنچ سے الگ نہیں کرتا، معذرت۔ لطیف کھوسہ نے عدالت سے مکالمہ کیا کہ بنچ پر اعتراض ہے، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا آپ کو نوٹس ہوا ہے؟ جب فریقین کو نوٹس ہوگا تب آپ کا اعتراض دیکھیں گے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں اس لیے بول رہا ہوں، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا ہم کھڑے ہو کر کیس سنیں؟ بیٹھ کر ہی مقدمہ سنا جاتا ہے۔
فیصل صدیقی نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نجی وکلا کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نجی وکلا کی خدمات کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے ہیں، مناسب ہو گا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کر سکتی۔ وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فریقین کے وکلا کا اعتراض بے بنیاد ہے، پہلے میرٹس پر کیس سنیں اور نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہو گا جبکہ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اپنے نوٹ میں فوجی عدالتوں کی درخواستوں پر رائے دے چکے ہیں۔
جسٹس سردار طارق نے وکلا سے سوال کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ جج کی مرضی ہے وہ اعتراض پر بنچ سے الگ ہو یا نا ہو، میں نہیں ہوتا بنچ سے الگ تو کیا کر لیں گے؟ اٹارنی جنرل دوران سماعت غصے میں آ گئے، انہوں نے کہا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود تو عدالت میں نہیں ہیں، بہتر ہے پہلے بنچ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کرے۔ عدالت نے اپیلوں پر سماعت کا آغاز کیا اور فریقین کے وکلا کو نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کی، شہدا فانڈیشن کے وکیل شمائل بٹ نے اپیل پر دلائل کا آغاز کیا اور بیرسٹر اعتزاز احسن بھی روسٹم پر آگئے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ اعتراض پر فیصلہ پہلے ہونا چاہیے کہ آپ نے بنچ میں بیٹھنا ہے یا نہیں، جس پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ میں نہیں کر رہا سماعت سے انکار آگے چلیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے اپیل کندہ شہدا فورم کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تفصیلی فیصلے کے بعد درخواست میں ترمیم بھی کرنا ہو گی۔ جسٹس سردار طارق نے اٹارنی جنرل کو دلائل شروع کرنے کی ہدایت کی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے خواجہ حارث کو وقت دینا چاہتا ہوں۔ خواجہ حارث وزارت دفاع کی جانب سے روسٹرم پر آئے اور دلائل دیئے، خواجہ حارث نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ دو لائن میں ایک قانون کی پوری سیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں پہلے ان دفعات کو برقرار رکھا گیا تھا، ایف بی علی کیس میں ان دفعات کو برقرار رکھا گیا اور ایف بی علی کیس میں 8 رکنی بنچ کا فیصلہ تھا، حالیہ فیصلے میں پانچ رکنی بنچ نے چار ایک کی اکثریت سے ان دفعات کو کالعدم قرار دیا اور اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں بھی ان دفعات کو برقرار رکھا گیا۔ جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقیں کس آئین کی شق کے تحت غیر آئینی ہیں، فیصلہ اس بارے میں خاموش ہے، ایف بی علی کیس میں فوجی ایکٹ کی شقوں کو برقرار رکھا گیا اور سپریم کورٹ میں 17 رکنی فل کورٹ نے بھی اکیسیویں ترمیم کیس میں ایف بی علی کیس کو درست قرار دیا، سپریم کورٹ کا ایک نو رکنی بنچ فیصلے میں کہہ چکا ہے کہ جرم کا تعلق فوج سے ہو تو فوجی عدالت میں ٹرائل پو سکتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل معطل کرنے کے حکم پر امتناع دینے پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کچھ دیر بعد سنایا۔ عدالت نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا 23 اکتوبر کا فیصلہ معطل کردیا جو عدالت نے پانچ ایک سے سنایا۔ 6 رکنی بنچ میں سے جسٹس مسرت ہلالی نے پانچ ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا۔