ترسیلات زر

رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں ترسیلات زر میں 10.8 فیصد کمی ریکارڈ

اسلام آباد(عکس آن لائن )بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں 10.8 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے دوران ترسیلات زر میں ماہانہ بنیادوں پر 27.4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ سالانہ بنیادوں پر 10.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔اعداد و شمار کے مطابق مارچ میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر کی مد میں ڈھائی ارب ڈالر موصول ہوئے۔مالی سال 2023کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران ترسیلات زر کی مد میں مجموعی طور پر ساڑھے 20 ارب ڈالر موصول ہوئے، جو گزشتہ برس کی اسی مدت کےمقابلے میں 10.8 فیصد کم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے دوران سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے موصول ہوئیں جو کہ 56 کروڑ 39 لاکھ ڈالر تھیں، برطانیہ سے 42 کروڑ 20 لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 40 کروڑ 67 لاکھ ڈالر اور امریکا سے 31 کروڑ 60 لاکھ ڈالر موصول ہوئے۔

واضح رہے کہ فروری میں ماہانہ بنیادوں پر ترسیلات زر میں 5 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں شرح تبادلہ پر کیپ ہٹانے کے بعد ڈالر کے 230 روپے سے موجودہ حقیقی قیمت 280 روپے پر ہونے کے بعد ہوا۔رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے رپورٹ کیا مالی سال 23-2022 کے ابتدائی 8 مہینے (جولائی تا فروری) میں مجموعی طور پر 17 ارب 99 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر آئیں جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 20 ارب 18 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں، یہ 10.8 فیصد کمی ہے۔اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروری میں رقوم کی آمد 4.9 فیصد اضافے کے بعد ایک ارب 98 کروڑ ڈالر رہی، جو جنوری میں ایک ارب 89 کروڑ ڈالر تھی، اس میں بہتری اچھا عندیہ ہے لیکن جب ترسیلات زر کا موازنہ گزشتہ برس کی اسی مہینے کی 2 ارب 19 کروڑ ڈالر سے کیا جائے تو اس میں 9.4 فیصد کمی ہوئی۔

فروری میں ڈالر کی بُلند قیمت کے سبب ترسیلات زر بڑھنے کی امید تھی، شرح تبادلہ سے کیپ ہٹانے کے نتیجے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہوئی لیکن اس سے ترسیلات کے رجحان میں تبدیلی ہوئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے ترسیلات زر غیرقانونی ذرائع سے بھیجی جا رہی تھیں کیونکہ غیرقانونی گرے مارکیٹ میں ڈالر کی 30 سے 40 روپے زیادہ قیمت کی پیش کش کی جارہی تھی، اس پس منظر میں آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شرح تبادلہ کو اس سطح پر لائیں جو پاک۔افغان سرحد پر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں