حیاتیاتی تنوع

حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں مشترکہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، چینی میڈ یا

بیجنگ (عکس آن لائن) 2023 میں چین کی “نمبر 1 مرکزی دستاویز” میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ” کالی مٹی کی غیر قانونی کھدائی اور کینچوؤں کو برقی جال سے پکڑنے جیسے مٹی کو نقصان پہنچانے والے عمل پر کاری ضرب لگائی جائے گی “۔”نمبر 1 مرکزی دستاویز” کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کی طرف سے ہر سال جاری کی جانے والی پہلی دستاویز ہے جس میں توجہ ، زراعت، دیہات اور کسانوں کے مسائل پر مرکوز ہوتی ہے ، اور یہ سال بھر کے لیے دیہات کی ترقی کی قائدانہ سمت کا تعین کرتی ہے. کینچوے جیسے چھوٹے اور عام سے کیڑے کو اتنی اہم دستاویز میں کیوں شامل کیا گیا؟

درحقیقت چھوٹے کینچووں کا تعلق نہ صرف زرعی پیداوار سے ہے بلکہ اس کے پیچھے تمام حیات کے بقائے باہمی کا قدرتی قانون چھپا ہے اور یہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں ہی انسانوں کے بھلائی ہے۔

بایو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروسز پر بین الحکومتی پینل کا کہنا ہے کہ زمین پر پانچ میں سے ایک فرد خوراک اور آمدن کے لیے براہ راست قدرتی انواع پر انحصار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، شہد کی مکھیاں، 80 فیصد پھولدار پودوں کو پولینیٹ کرتی ہیں، جن میں 130 سے ​​زیادہ اہم زرعی فصلیں شامل ہیں، اور یہ غذائی تحفظ کے لیے بہت ضروری ہیں۔ کینچوا مٹی کے پائیدار استعمال کے لیے اہم انواع میں سے ایک ہے جسے چارلس رابرٹ ڈارون نے “دنیا کا سب سے قیمتی جانور” کہا تھا اور یہ زرعی پیداوار کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اس وجہ سے، “نمبر 1 مرکزی دستاویز” نے خاص طور پر اس چھوٹے سے کیڑے کے تحفظ پر زور دیا ہے۔
“تمام حیات کو زندہ رہنے کے لیے باہمی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم آہنگی سے اس کی پرورش بہترہوتی جاتی ہے۔” مختلف انواع مختلف نظر آتی ہیں، لیکن درحقیقت وہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ پودے جانوروں کے لیے خوراک فراہم کرتے ہیں اور جانور پودوں کے لیے بیج پھیلاتے ہیں۔ ایک نوع کے معدوم ہونے کا مطلب نہ صرف اس کی جینیاتی، ثقافتی اور سائنسی قدر کا نقصان ہے، بلکہ یہ 10 سے 30 دیگر جانداروں کے ناپید ہونے کا باعث بن سکتا ہے، جو ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کرتا ہے۔

مثال کے طور پر ہمیں انجیر کھانا پسند ہے۔ انجیر ایران اور ترکیہ کی سرحد سے متصل سطح مرتفع کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور انسانوں کے اگائے جانے والے ابتدائی پھل دار درختوں میں سے ایک ہے۔ 10,000 سال سے زیادہ پہلے، لوگ انجیر کو کٹنگ کے ذریعے پھیلاتے تھے، مقامی لوگ جب باہر جاتے تھے تو خشک انجیر کو اپنے ساتھ خوراک یا بطور تحفہ لے جاتے تھے۔ خشک انجیر نے وسیع ریگستانوں میں شاہراہ ریشم پر تاجروں کی مدد کی،انہیں مشرق اور مغرب کے درمیان ربط کہا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے پینٹنگز، مجسمے یہاں تک کہ ادبی کاموں میں بھی انجیر کے عناصر شامل ہیں. لیکن انجیر کا درخت ایک خاص قسم کا پودا ہے جس کے پھول پھلوں کے اندر چھپے ہوتے ہیں اور اس کی پولینیشن کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے مخصوص شہد کی مکھیاں درکار ہوتی ہے۔ یہ شہد کی مکھی پھل کے اندر چھپ جاتی ہے، انجیر پر رہتی ہے اور انجیر کو پولینیٹ بھی کرتی ہے۔ اگر یہ مکھی معدوم ہو جائے تو انجیر کے بھی معدوم ہوجانے کا خطرہ ہے۔ یہ نہ صرف ایک قسم کے پھل کا غائب ہونا ہے بلکہ اس سے جڑی زرعی اور ثقافتی روایات کا بھی ختم ہونا ہے۔

لوگ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ ناروے کے جزائر سوالبارڈمیں آرکٹک کی منجمد مٹی کے نیچے ایک ذخیرہ ہے جسے “ڈوم ڈے گرینری” کہا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر کے 200 سے زیادہ ممالک اور خطوں کے 10 لاکھ سے زیادہ پودوں کے بیج ذخیرہ کیے گئے ہیں۔ 1920 کی دہائی میں روس نے سینٹ پیٹرزبرگ میں دنیا کا پہلا سیڈ بینک قائم کیا تھا، اب تک پوری دنیا میں 1,700 سے زیادہ سیڈ بینکس ہیں۔

نایاب پودوں کے بیجوں کو ان “سیڈ بینکس” میں ذخیرہ کیا جاتا ہے تاکہ اگر کوئی نوع غائب ہو جائے تو بینک سے بیجوں کو نکال کر دوبارہ اگایا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، حیاتیاتی تنوع کے کنونشن اور موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن نے دنیا بھر کی حکومتوں کو حیاتیاتی ماحول اور متنوع انواع کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی تاکید جاری کی ہے۔

حقائق نے ثابت کیا ہے کہ یہ اقدامات موثر ہیں۔ پچھلے مہینے، جریدے سائنس نے ایک تجزیہ شائع کیا جس کے مطابق حیاتیاتی تحفظ کے لیے جو کارروائی کی گئی تھی ان میں دو تہائی موثر ثابت ہوئی ہے۔

چین “سبز پہاڑ اور شفاف پانی انمول اثاثے ہیں” کے ترقیاتی تصور کو عملی طور پر نافذ کرتا ہے اور اس نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں: حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی پالیسیوں اور ضوابط کو مضبوط بنانے کے لیے چین کے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی حکمت عملی اور ایکشن پلان (2023 -2030) سمیت دیگر پالیسی دستاویزات جاری کی گئیں جو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی رہنمائی کرتی ہیں ۔نیشنل پارکس کے ساتھ نیچرل ریزرو ز کا نظام بنایا گیا ہے جہاں اہم قدرتی ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی وسائل کا موثر تحفظ کیا جا رہا ہے۔ حیاتیاتی تنوع کی گلوبل گورننس میں بھی چین کی فعال شرکت ہے۔

چین حیاتیاتی تنوع کے کنونشن کے نفاذ کی بھرپور حمایت کرتا رہا ہے، عالمی ماحولیاتی سہولت کے لیے عطیات میں اضافہ کرتا رہا ہے ، “بیلٹ اینڈ روڈ” اور “جنوب-جنوب تعاون” سمیت کثیر جہتی تعاون کے طریقہ کار کے تحت ترقی پذیر ممالک کو بھی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے چین نے جنگلی حیات کے تحفظ اور قدرتی ریزرو کے نظام کی تعمیر میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور عالمی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں چینی دانشمندی اور طاقت کا حصہ ڈالا ہے۔

22 مئی کو حیاتیاتی تنوع کا بین الاقوامی دن ہے، اور اس سال کا تھیم “اس عمل کا ایک حصہ بننا” ہے۔ یہ اہم موقع ہے جو ایک بار پھر ہمیں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی قدر کرنے اور ہمارے پائیدار مستقبل میں اپنا حصہ ڈالنے کی یاد دلاتا ہے۔