لاہورہائیکورٹ

حمزہ شہباز کے خلاف درخواستیں ،اسمبلی میں لوگوں کو داخل ہونے سے روکنا سیکریٹری اسمبلی کا کام تھا، لاہور ہائیکورٹ

لاہور (کورٹ رپورٹر ) لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں ریمارکس میں کہا کہ اسمبلی کے اندرلوگوں کو داخل ہونے سے روکنا سیکریٹری اسمبلی کا کام تھا، اسمبلی میں لوٹے گئے یہ شرمناک تھا، پوری دنیا کی اسمبلیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں، جو اس دن ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ وہ افسوسناک تھا، سیکرٹری اسمبلی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے ماتحت ہے اسپیکراور ڈپٹی اسپیکر سیکرٹری کے ماتحت نہیں ۔

لاہور ہائیکورٹ میں حمزہ شہباز کے وزیراعلی کے الیکشن کے خلاف تحریک انصاف، پرویز الہی سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل میں کہا کہ 63 اے اطلاق ماضی سے ہوگا میں نے تین عدالتی نظیریں دے ہیں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا مختصر حکم نامہ بھی عملدرآمد کے لیے کافی ہے۔ آئین کہتا ہے جس کے پاس عددی اکثریت ہو گی وہ چیف منسٹر بنے گا۔ اسپیکر کے فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے عدالتیں پارلیمانی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ چیف منسٹر کے الیکشن کا کیس اس عدالت کے پاس آیا عدالتی حکم پر الیکشن ہو گیا۔ وزیراعلی پنجاب کے الیکشن کے وقت اسپیکر نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کیا۔

اس معاملے پر اس عدالت میں پٹیشن دائر کی گئی۔ پھرانٹرکورٹ اپیل میں الیکشن کروانے کا حکم دیا گیا۔ وکیل تحریک انصاف نے دلائل میں کہا کہ عدالتیں صرف اس وقت مداخلت کر سکتیں ہیں جب اسپیکر کے کسی اقدام میں بدنیتی ہو۔ آئین کے آرٹیکل 130 کے مطابق وزیر اعلی کے پاس عددی اکثریت ہونی چاہیے۔ 63 اے کی تشریح سے قبل بھی 63 اے موجود تھا اور لاگو تھا۔ سپریم کورٹ نے واضح فیصلہ دیا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ ایڈووکیٹ علی ظفر نے کہا کہ اب بظاہر کسی کے پاس بھی عددی اکثریت موجود نہیں ہے۔ یہ معاملہ دوبارہ چیف منسٹر کے الیکشن کی طرف ہی جائے گا۔ دوسری بار ووٹنگ میں 186 ووٹ لینے ہوں گے اگر 186 ووٹ کوئی نہیں لے سکا تو جو زیادہ ووٹ لے گا وہ چیف منسٹر منتخب گا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اسمبلی میں کل ممبران کی تعداد کتنی ہے۔ علی ظفرایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ 371 ممبران کی پنجاب اسمبلی ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی کے اراکین اسمبلی دوسری پارٹی کو جوائن کر رہے ہیں سپریم کورٹ نے یہ روک دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے یہ تاریخی کیس ہے پورا ملک اس عدالت کی طرف دیکھ رہا ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کے اپنے دلائل مکمل ہونے کے بعد عامر راں ایڈووکیٹ وکیل ق لیگ نے دلائل دیے کہ آئی جی پنجاب نے اسمبلی میں پولیس داخل کی۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ عدالت نے حکم دیا۔ وکیل ق لیگ نے کہا کہ عدالت نے ایسا حکم جاری نہیں کیا تھا، متعدد ممبران پولیس کی مداخلت کے باعث ووٹ نہیں ڈال سکے جس پرعدالت نے کہا کہ اسمبلی میں جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔ بظاہرسیکرٹری اسمبلی نے اس موقع پر اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وکیل ق لیگ نے دلائل میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر اپوزیشن سے ملے ہوئے تھے۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے معاملے کو دوسری جانب لے جا رہے ہیں۔ جو ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ ہوا سب نے ٹی وی پر دیکھا۔ اسمبلی کے اندر لوگوں کو داخل ہونے سے روکنا سیکرٹری اسمبلی کا کام تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی میں لوٹے گئے یہ شرمناک تھا۔ پوری دنیا کی اسمبلیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ لیکن جو اس دن ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ وہ افسوسناک تھا۔ سیکرٹری اسمبلی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے ماتحت ہے اسپیکراور ڈپٹی اسپیکر سیکرٹری کے ماتحت نہیں۔ ہم بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں ٹی وی پر سب دیکھا کہ اس دن کیا ہوا۔ حمزہ شہباز کے وکیل منصورعثمان اعوان اور خالد اسحاق عدالت میں پیش ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں