چیئرمین نیب

جعلی بینک اکائونٹس کیس ،سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب سے ملزمان کی عدم گرفتاری کی وجوہات طلب کر لیں

اسلام آباد (عکس آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی بنک اکاونٹس کیس میں ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کی درخواستوں پر چیئرمین نیب سے ملزمان کی عدم گرفتاری کی وجوہات طلب کر لیں ۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

سپریم کورٹ نے کہاکہ پراسیکوٹر جنرل نیب چیئرمین نیب سے وجوہات پتہ کر کے عدالت کو آگاہ کریں، عدالت نے کہاکہ نیب وضاحت کرے کہ ملزمان کی گرفتاری میں تفریق کیوں کی جاتی ہے۔ رشید اے رضوی وکیل ڈاکٹر ڈنشا نے کہاکہ میرا موکل 20 ماہ سے جیل میں ہے، صرف میرے موکل کو پکڑا گیا باقی ملزمان آزاد ہیں۔ رشید اے رضوی نے کہاکہ گلیکسی کنسٹرکشن کے سی ای او زین ملک ہیں،میرے موکل نے قانونی طریقے سے پلاٹ خریدا، اس وقت احتساب کا زمانہ تھا۔ جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی نے کہاکہ آج بھی احتساب کا موسم ہے۔ رشید اے رضوی نے کہاکہ میرا موکل اقلیتی برادری سے تعلق رکھتا ہے جو کہ کمزور ہے، 86 گواہان ہیں کیس میں ایسا چلتا رہا تو تین سال مزید جیل میں لگ جائیں گے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہاکہ ایک ہی ریفرنس میں کچھ ملزمان کو پکڑنے اور کچھ کو نہ پکڑنے کی کیا منطق ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ چیئرمین نیب کیس اتھارٹی سے ملزمان کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ کرتے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبری نقوی نے کہاکہ 25 ملزمان میں سے صرف 4 کو کیوں پکڑا گیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ جو مرکزی ملزمان ہیں انکو پکڑا گیا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ نیب آنکھیں اور کان بند کر لے تو کچھ نہیں نظر آتا۔

انہوںنے کہاکہ کچھ جگہوں پر نیب کے پر جلتے ہیں، سب کو پتا ہے کہ عمارت کس کی ہے۔ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے کہاکہ ڈاکٹر ڈنشا 20 ماہ سے جیل میں ہے ابھی تک چارج بھی فریم نہیں ہوا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ہم نیب تحقیقات کی شفافیت پر بات کر رہے ہیں۔ وکیل لیاقت قائم خانی نے کہاکہ بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر میں ساری رقم بحریہ ٹاؤن کے اکاونٹس سے منتقل ہوئی۔ خواجہ حارث نے کہاکہ سب سے بڑا بینیفشری بحریہ ٹاؤن ہے۔ رشید اے رضوی نے کہاکہ بحریہ ٹاؤن نے 10 ارب روپے ادا کیے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیب مرکزی ملزمان کی گرفتاری کرتا ہے سب سے بڑا بینیفشری تو بحریہ ٹاؤن ہے۔ وقفے کے بعد پراسیکوٹر جنرل نیب عدالت میں پیش ہوئے ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ہمیں تشویش ہے کہ نیب کچھ ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کر رہا۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے کہاکہ ملزم کی عدم گرفتاری میں سب سے بڑی وجہ پلی بارگین ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ پلی بارگین کی درخواستوں کی وجہ سے نیب کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ بحریہ ٹاؤن کی 6 پلی بارگین کی درخواستیں منظور ہوچکی جبکہ سات زیر التوا ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ آپ دوسرے مقدمات کی بات کر رہے ہم اس کیس کا پوچھ رہے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ اس کیس کو تفصیل سے نہیں پڑھا مہلت دی جائے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہاکہ یہ بتائیں کہ ملزمان کی گرفتاری کا طریقہ کار کیا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ نیب میرٹ پر گرفتاری کرتا ہے،اب نیب کا طریقہ کار بدل چکا ہے پہلے ملزم کا کال اپ نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ملزم سے جواب طلب کیا جاتا ہے جس کے بعد کاروائی ہوتی ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہاکہ 25 میں سے صرف 4 ملزمان گرفتار ہیں باقیوں کا کیا بنا۔ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ جن کو گرفتار نہیں کیا گیا انھوں نے شاید پلی بارگین کی درخواست دی ہوئی ہو،تفصیلی رپورٹ میں تمام حقائق بیان کر دیں گے۔سپریم کورٹ نے نیب سے ملزمان کی گرفتاری کے طریقہ کار سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی،عدالت نے پیر تک نیب کو تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ نیب آرڈیننس کے مطابق گرفتاری کا طریقہ کار بتایا جائے،نیب پلی بارگین سے متعلق بھی جواب جمع کرایا جائے۔کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں