جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس ،ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی، جسٹس عمر عطا بندیال

اسلام آباد(عکس آن لائن ) جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس رکوانے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی،جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جج کے مس کنڈکٹ کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بجائے کابینہ کرے، کیا وزیراعظم اپنے اختیارات کسی کو دے سکتے ہیں؟،جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کسی بھی شخص کے خلاف اس وقت تک تحقیقات نہیں ہوسکتیں جب تک متعلقہ انتظامیہ اجازت نہ دے، افتخار چودھری کیس میں اس قانون کا تعین ہوچکا، صدر کو اختیار حاصل ہے لیکن صدر کی جانب سے تحقیقات کی اجازت نہیں دی گئی، اے آر یو نے برطانیہ میں جج کی تحقیقات کےلیے نجی کمپنی کو رکھا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس رکوانے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ان کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ اثاثہ جات کی برآمدگی کا یونٹ (اے آر یو )کو اداروں کی جانب سے 10 مئی کو دستاویزات موصول ہوئیں۔جس پر دس رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رولز آف بزنس میں تو اے آر یو کا ذکر نہیں۔منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو نے 10 سال کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے نجی تحقیقاتی کمپنی کی خدمات حاصل کیں اور ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی اے آر یو نے تحقیقات کیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی جانب سے کسی شہری کے خلاف کوئی بھی اقدام قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 4 اس حوالے سے کہتا ہے کہ ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی۔اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کے لیے قانون سیکشن آف پاور کی ضرورت ہے اور شہری کوئی بھی ایسا قدم اٹھا سکتا ہے جو قانون کے خلاف نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی ادارے یا اہلکار صرف وہ اقدامات کرسکتے ہیں جن کی قانون میں اجازت ہے۔جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایکزیکٹیو اتھارٹی ماورائے قانون کوئی اقدام نہیں کرسکتی، اگر کوئی انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے غلط اقدام کو عدالت کالعدم کر سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اداروں کو اور انتظامیہ کو اختیارات قانون ہی دیتا ہے اور افتخار چودھری کیس اعلی عدلیہ کے جج کے مس کنڈکٹ سے متعلق تھا۔انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس دائر کیا اور اب کابینہ وزیراعظم کے ذریعے صدر کو ایڈوائس بھیجتی ہے۔منیر اے ملک نے کہا کہ میرا مدعا ہے کہ کابینہ کی منظوری ضروری ہے۔جسٹس منیب اختر نے اسفتسار کیا کہآپ کہنا چاہتے ہیں کہ کابینہ معاملہ صدر کو بھیجتی ہے؟۔جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جج کے مس کنڈکٹ کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بجائے کابینہ کرے۔منیر اے ملک نے کہا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا کیونکہ ریفرنس کی منظوری کابینہ دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے آر یو کے سربراہ کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن دیکھ لیں یہ جسٹس قاضی عیسی کے خلاف تحقیقات سے پہلے جاری ہوا یا بعد میں۔منیر اے ملک نے کہا کہ تحقیقات پہلے شروع ہوئیں اور شہزاد اکبر نے ہی کروائیں اور پھر بعد میں وزیراعظم نے شہزاد اکبر کو اپنا معاون خصوصی تعینات کیا۔ان کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر کو اختیار نہ تھا کہ جج کے مس کنڈکٹ کی تحقیقات کرے۔جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم اپنے اختیارات کسی کو دے سکتے ہیں؟۔منیر اے ملک نے کہا کہ کسی بھی شخص کے خلاف اس وقت تک تحقیقات نہیں ہوسکتیں جب تک متعلقہ انتظامیہ اجازت نہ دے اور افتخار چودھری کیس میں اس قانون کا تعین ہوچکا۔انہوں نے کہا کہ صدر کو اختیار حاصل ہے لیکن صدر کی جانب سے تحقیقات کی اجازت نہیں دی گئی۔جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اے آر یو نے برطانیہ میں جج کی تحقیقات کے کیے نجی کمپنی کو رکھا، جی ایسا ہی ہے۔بعدازاں عدالت نے سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں