عمران خان

تو ہینِ عدالت کیس، عمران خان کا 21 صفحات پرمشتمل عارضی جواب جمع

اسلام آ باد (نمائندہ عکس ) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے توہینِ عدالت کیس میں 21 صفحات پر مشتمل عارضی جواب عدالت میں جمع کرادیا، عمران خان کی جانب سے تحریری جواب میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ 25اگست کو جاری کیا گیا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔ توہین عدالت کی کارروائی نمٹا دی جائے۔سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تحریری جواب سینئر وکیل حامد خان نے وکلا کی ٹیم کے ہمراہ تیار کیا۔ وکلا کی ٹیم میں بیرسٹرسلمان صفدر، محمد وقاررانا، نیازاللہ نیازی، شعیب شاہین اور اجمل غفار ایڈووکیٹ شامل ہیں۔

عمران خان کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ میرے جواب کو عارضی جواب سمجھا جائے۔ مجھے ماتحت عدالتوں کے ریکارڈ تک رسائی حاصل نہیں ہے،میرا جواب محدود معلومات کی بنیاد پر ہے۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے جواب میں کہا گیا ایسا لگتا ہے کہ درخواست گزارکی ریلی میں تقریر پر کارروائی شروع کی گئی۔ اس کارروائی کاریفرنس ایڈیشنل سیشن جج سے منسوب کیا گیا۔ مجسٹریٹ، پولیس افسران کے کنڈکٹ پرگذشتہ چند ہفتوں سے سوال اٹھائے جارہے تھے۔

جواب میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کے ڈپٹی رجسٹرارجوڈیشل کے نوٹ پرکارروائی کا آغا زکیا گیا۔ قانون کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔ کارروائی حقائق اور قانون کومدنظر رکھ کر شروع نہیں کی گئی۔ عمران خان کی جانب سے تحریری جواب میں توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کیلئے جاری پہلے حکم کا حوالہ بھی دیا گیا۔ تحریری جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ قائم مقام چیف جسٹس نے لکھا کہ ڈپٹی رجسٹرار نے نوٹ میرے سامنے رکھا۔ تمام فاضل ججز نے چائے کے کمرے میں توہین عدالت کی کارروائی پر اتفاق کیا۔ عدالت نے کارروائی کا آغاز کرنے سے پہلے طے شدہ طریقہ کار نہیں اپنایا۔ رواج بن گیا کہ عدالتیں اخباری رپورٹس پر نوٹس لینا شروع ہوگئی ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے تحریری جواب میں کہا کہ اس طرح نوٹسزسے فیئر ٹرائل کا عمل اور قانون کی حکمرانی متاثر ہوسکتی ہے۔ ڈپٹی رجسٹراراخباری تراشوں کی بنیاد پر نوٹ لکھ کر عدالت کے سامنے نہیں رکھ سکتے۔

کارروائی بغیر دائرہ کار کے شروع کی گئی اس لئے یہ واپس لینے کے قابل ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔ سابق وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ جن فاضل ججز نے معاملے پر پہلے ہی فیصلہ کرلیاانہیں معاملہ سننے سے انکار کردینا چاہیئے۔ ڈیو پراسس اور قانون کی حکمرانی کیلئے ججز کومعاملہ سننے سے انکارکرنا چاہیئے۔ ڈپٹی رجسٹرار نے کارروائی کا آغاز کیا لیکن کیس کا ٹائٹل ریاست بذریعہ ایڈووکیٹ جنرل رکھا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد وفاقی حکومت کے ماتحت ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے نام سے کارروائی کا آغاز نہیں کیا جاسکتاکیونکہ وہ پراسیکیوٹرہے۔ تحریری جواب میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 7کے تحت عدلیہ کو ریاست کی تعریف سے نکال دیا گیا۔ از خود نوٹس کے ذریعے توہین عدالت کی کاروائی کا آغازنہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کے ریمارکس براہ راست خصوصا جوڈیشل افسرکے خلاف نہیں تھے۔ نہ ہی ان ریمارکس کے پیچھے کوئی بدنیتی تھی۔ وکلا نے تحریری جواب میں عدالت کو بتایا کہ شہباز گل پردوران حراست جسمانی اور جنسی تشدد کی تصاویردیکھ کر عمران خان ڈسٹرب تھے۔

شہباز گل پرتشدد کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھا۔ ریمارکس انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں تھی۔ ریمارکس سے پہلے ہی ریمانڈ دیا جاچکا تھا۔ ریمارکس کامقصد عدلیہ اورعدالتی نظام کو ساکھ کو متاثر کرنانہیں تھا۔ عمران خان نے تحریری جواب میں کہا کہ جس دن تقریری کی اس دن فوجداری نظرثانی کی درخواست نمٹائی جاچکی تھی۔ انصاف کے نظام کی بہتری کے لئے مناسب تنقید کی جاسکتی ہے۔ توہین عدالت کی کارروائی ان اخبارات کے تراشوں پرکی گئی جو عمران خان پر تنقید کرتے ہیں۔ شہباز شریف بنام وفاق کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اخباری تراشوں کے حوالے سے قانو ن طے کیا۔ تحریری جواب میں مذید کہا گیا کہ آپ سب شرم کرو کو رجسٹرار اور عدالت نے سیاق وسباق سے ہٹ کر توہین کے طور پر لیا۔ یہ الفاظ کسی مذموم مقصد یا بدنیتی سے نہیں کہے گئے۔ آپ سب شرم کریں کا ٹارگٹ ماتحت عدالت کی فاضل جج نہیں تھیں۔ یہ معاملہ اس وقت سے منظر عام پرآیا ہے جب شہباز گل کو گرفتارکرکے تشدد کیا گیا۔

شہبازگل کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کے بعد دوبارہ جسمانی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ عمران خان خود ملک میں قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ چہئرمین پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ بلاشبہ اس عدالت کی آبزرویشنز کا مقصد ٹریبونلزاور عدلیہ کی آزادی کا تحفظ ہے۔ شہریوں کے اظہاررائے کی آزادی کے حق کا بھی تحفظ کیا جائے۔ انصاف ہونا نہیں چاہیئے بلکہ ہوتا نظربھی آنا چاہیئے۔ بیان کا مقصد عدلیہ کی تضحیک نہیں تھا۔ بیان کامقصد شہباز گل سمیت ہرشہری کیلئے انصاف کی فراہمی یقینی بنانا تھا۔ عمران خان قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس عدالت نے ایسے معاملات میں ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا۔ عمران خان کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ عمران خان سمجھے کہ زیبا چوہدری جوڈیشل نہیں انتظامی افسرہیں۔

عمران خان کا مقصدکسی جوڈیشل افسر کے خلاف بات کرنا نہیں تھا۔ جوڈیشل افسرکے کام میں مداخلت نہیں ہونی چاہیئے۔ اعلی عدالتوں میں زیر سماعت معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیئے۔ عمران خان عدالتوں پر عوامی اعتماد کم کرنے کابھی نہیں سوچ سکتے۔ کسی ایسے عمل کے بارے میں نہیں سوچ سکتے توہین عدالت ہو۔ عمران خان نے ہمیشہ عدلیہ کی آزدی کیلئے جدوجہد کی ہے۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالتی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔ عمران خان مضبوط ، آزاد اور قابل اعتماد عدالتی نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران خان سیاست میں آئے ہی آئین وقانون کی حکمرانی کیلئے ہیں۔ آئین نے ہر شہری کو ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا حق دیا۔ شہباز گل کو انصاف دلانے کیلئے تمام قانونی ذرائع استعمال کریں گے۔

بتایا گیا تھا کہ شہباز گل کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا ہے۔ شہباز گل کے ساتھ سلوک نے انہیں دماغی طور پرتوڑ کررکھ دیا۔ تحریری جواب میں مذید کہا گیا کہ تشددکے باوجود شہباز گل کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا۔ عمران خان نے جوش خطابت میں قانونی ایکشن کے الفاظ استعمال کئے۔ عمران خان فاضل جج کونشانہ بنانے پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر ایسے کوئی الفاظ کہے گئے ہیں جو نامناسب تھے تو وہ الفاظ واپس لینے کو تیار ہیں۔ عدالت چاہے توعمران خان کا مطمع نظرجاننے کیلئے تقریرکے متن کا جائزہ لے سکتی ہے۔ یقینا عمران خان کا مقصد نیک نیتی پر مبنی ہے۔ عمران خان کی جانب سے تحریری جواب میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ 25اگست کو جاری کیا گیا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔ توہین عدالت کی کارروائی نمٹا دی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں