ٹرمپ

” بیوقوف نہ بنیں“ ٹرمپ کا شام میں حملوں پر اردگان کو خط

واشنگٹن /انقرہ (عکس آن لائن)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک ہم منصب رجب طیب اردگان کو شام میں حملوں سے متعلق لکھے گئے غیر معمولی خط میں خبردار کیا ہے کہ ’ بے وقوف نہیں بنیں۔رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ خط شمالی شام میں ترک حملوں کے آغاز پر گیا تھا جس میں انقرہ کو تاریخی خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ترک صدر کو شیطان‘ قرار دیا گیا تھا۔شام میں کردوں کے اکثریتی علاقے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد خبروں کی زینت بننے کے 3 روز بعد امریکی صدر نے ترک ہم منصب کو بتایا تھا کہ میں بتدریج انقرہ کی معیشت کو برباد کردوں، اگر ترک رہنما خطرناک اور تباہ کن راستہ اختیار کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔سفارتی زبان میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے خط میں موجودہ خطرات کا ذکر سے خط کا آغاز کیا۔

9 اکتوبر کو لکھے گئے خط میں امریکی صدر نے کہا کہ ایک اچھے معاہدے پر کام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ آپ ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتے اور میں ترک معیشت کی تباہی کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا اور میں ایسا کروں گا۔امریکی صدر نے خط میں کہا تھا کہ تاریخ آپ کو اچھے انداز میں دیکھے گی اگر آپ اسے صحیح اور انسانی طریقے سے کریں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر اچھی چیزیں رونما نہ ہوئیں تو یہ (تاریخ) آپ کو ہمیشہ شیطان کے طور پر دیکھے گی۔انہوں نے رجب طیب اردگان کو بتایا تھا کہ ایک عظیم معاہدہ ممکن ہے کہ اگر وہ کردوں کی سرپرستی میں شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے سربراہ مظلوم عابدی سے مذکرات کرلیں۔خیال رہے کہ ترکی مظلوم عابدی کو انقرہ میں موجود کرد جنگجو کی وجہ سے دہشت گرد قرار دیتا ہے۔صدر ٹرمپ نے خط میں کہا تھا کہ” سخت انسان نہ بنیں، بیوقوف نہ بنیں‘’ اختتام میں امریکی صدر نے مزید لکھا تھا کہ میں آپ کو بعد میں کال کروں گا۔واضح رہے کہ ترکی نے شام میں کردوں، جسے وہ دہشت گرد قرار دیتا ہے، کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد کیا جبکہ ٹرمپ کے فیصلے کو واشنگٹن میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔کرد جنگجو شام میں امریکی اتحادی تھے اسی لیے ٹرمپ کے اچانک فیصلے کو واشنگٹن میں اپنے اتحادیوں سے دھوکے سے تعبیر کیا گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو کرد جنگجووں نے بھی ‘پیٹھ میں چھرا گونپنے’ کے مترادف قرار دیا تھا لیکن امریکی صدر نے اس تاثر کو رد کردیا۔

ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو، جنہیں وہ دہشت گرد قرار دے دیتا ہے، ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے چند روز قبل فوج کو کرد جنگجووں کے خلاف آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں ‘دہشت گردوں کی راہداری’ کو ختم کرنا ہے۔شمالی شام میں ترک حملوں کے بعد بعد ترکی کے وزراءاور اداروں پر پابندیاں عائد کردیں تاہم گزشتہ روز طیب اردگان نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام میں آپریشن جاری رہے گا اور شام کے مسائل کا واحد حل کرد فورسز کے ہتھیار ڈالنے، ان کے تمام ٹھکانوں کے تباہ کرنے اور ہمارے بنائے ہوئے سیف زونز سے انہیں بے دخل کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں