رحمن ملک

بہت ساروں کو دوستی کی آڑ میں دشمن دیکھے جن سے زندگی کا سبق سیکھا، رحمن ملک

اسلام آباد (عکس آن لائن) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے کہا ہے کہ پہلے ہم انگریزوں کے محکوم تھے اور آج ہم خواہشات کے محکوم ہیں، اگر پارلیمنٹ ہائوس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو عام آدمی کا اعتماد اٹھ جائیگا، قانون سازی کے وقت اپنے ضمیر کی آواز اور ملکی مفاد کو ہمیشہ فوقیت دی، اگر ایم این اے وزیراعظم بن سکتا ہے تو سینیٹر کیوں وزیراعظم نہیں بن سکتا؟۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رحمن ملک نے کہا ہے کہ بہت ساروں کو دوستی کی آڑ میں دشمن دیکھے جن سے زندگی کا سبق سیکھا، پہلے ہم انگریزوں کے محکوم تھے اور آج ہم خواہشات کے محکوم ہیں، اگر پارلیمنٹ ہائوس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو عام آدمی کا اعتماد اٹھ جائیگا، قانون سازی کے وقت اپنے ضمیر کی آواز اور ملکی مفاد کو ہمیشہ فوقیت دی، اگر ایم این اے وزیراعظم بن سکتا ہے تو سینیٹر کیوں وزیراعظم نہیں بن سکتا؟۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ الوداع سینیٹ ہمارا ساتھ ختم ہوا،اس سفر میں جدا ہونے والے ساتھیوں سینیٹرز کی مغفرت کیلئے دعا گو ہوں، میں سینیٹ کو اسی طرح یاد رکھوں گا جیسے بچہ اپنا سکول یاد رکھتا ہے، مجھے یہاں بہت سارے اچھے دوست ملے،بہت ساروں کو دوستی کی آڑ میں دشمن دیکھے جن سے زندگی کا سبق سیکھا، ہم اس ایوان میں غریب کی خدمت کیلئے آتے ہیں تاہم آج ہم خود عرض ہوگئے ہیں، پہلے ہم انگریزوں کے محکوم تھے اور آج ہم خواہشات کے محکوم ہیں، پاکستان اسوقت نقصان ہی نقصان کیطرف جارہا ہے، میں نے جمہوری اقدار کو یہاں پامال ہوتے دیکھا ہے، ہم نے جمہوریت کی انگریزی ٹوپی پہنی ہے کہ ہم لگتے تو جمہوری ہے مگر درحقیقت نہیں ہیں۔

انہوںنے کہاکہ یہاں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ ٹریڈنگ ہوتے دیکھا ہے، ضمیر کا لفظ تو ایسے سنتے ہیں جیسے سینیٹ میں کوئی ضمیر نام کا آدمی ہو، جسطرح پارٹی رہبر کام کرتے ہیں اس پر اب زیادہ بات نہیں کرتا مگر جلد کتاب کی شکل میں آئیگا، اگر پارلیمنٹ ہائوس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو عام آدمی کا اعتماد اٹھ جائیگا، وزیر داخلہ سمیت کئی عہدوں پر فائز رہا میری ٹیم نے ہر عہدے پر میرا ساتھ دیا۔ انہوںنے کہاکہ ہر عہدے کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے میں نے اپنی ضمیر کی آواز سنی،مجھے یہاں بہت سے کاموں میں مخالفت کا سامنا رہا،داعش القائدہ سے زیادہ دہشتگرد خطرناک تنظیم ہے،میں نے جب داعش کے خطرے کی بات کی تو میری مخالفت کی گئی ،

آج سب داعش کے خطرات کوجانتے ہیں اور مانتے ہیں، میں نے پاک آرمی کی اگر تعریف کی تو بہت ساروں کو اچھا نہیں لگا۔ انہوںنے کہاکہ اگر کوئی سرحدوں پر لڑتے سپاہی کی تعریف کرے تو اسکو اسٹبلشمنٹ کا بندہ ہونے کے طعنے دئیے جاتے ہیں، بہت سارے سینیٹرز کو جانتا ہوں جنکو آرمی کی تعریف کرنے پر پارٹیوں نے وضاحتیں طلب کیں ، میں نے آرمی چیف کی اکسٹنشن کی ضرورت پر کالم لکھا تو کئی دوست ناراض ہوئے، قانون سازی کے وقت اپنے ضمیر کی آواز اور ملکی مفاد کو ہمیشہ فوقیت دی، قانون سازی کے دوران آنے والے کالز کو ہمیشہ نظرانداز کیا، میں آنے والے سینیٹرز کو کہوں گا کہ قانون کی بالادستی کے لیے کام کریں، جس ملک میں قانون کی بالادستی نہ ہو وہ تباہی کیطرف جاتے ہیں، سینیٹ کو قومی اسمبلی سے کم اہمیت دی جاتی ہے،یہ ایوان بالا تو ہے مگر ایوان زیریں سے بھی نیچے ہے۔

انہوںنے کہاکہ سینیٹ کو ہمیشہ میں نے انڈرمائین ہوتے دیکھا ہے، اگر ایم این اے وزیراعظم بن سکتا ہے تو سینیٹر کیوں وزیراعظم نہیں بن سکتا، قومی اسمبلی کے بلز سینیٹ سے پاس ہوجاتے ہیں مگر سینیٹ کے بلز اکثر مشترکہ سیشن میں روکے جاتے ہیں، سینیٹ وفاق کی علامت ہے کہ یہاں سے صوبوں کو حقوق ملے، صوبوں کو ان کی پیداوار سے ہی حصہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا کو بجلی اور بلوچستان کو گیس نہیں مل رہی ہے، میں نے بہت سے قانون پیش کئے کچھ پر عمل ہوا کچھ پر صرف بحث ہوئی،جو بارہ سال مجھ پر میری پارٹی نے اعتماد کیا اس پر شکر گزار ہوں۔

انہوںنے کہاکہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو سے بہت کچھ سیکھا ہے ہر جگہ انکا نام لیا کرونگا، محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے نظرئیے کے لئے ہمیشہ سب سے بڑھ کر کام کرونگا، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا بیحد مشکور ہوں، ہر آنے والے سینیٹر کو کہوں گا پاکستان اور عام آدمی کی سربلندی کے لیے کام کریں، میں یہاں سے جارہا ہوں مگر نہ میرا سیاسی سفر اور نہ جدوجہد ختم نہیں ہوگی ،آج سے قومی اور بین الاقوامی فورمز پر مجھے ایک نئے انداز میں دیکھے گے، میڈیا نے ہمیشہ بھرپور ساتھ دیا ہے جس کے لئے مشکور ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں