لندن(عکس آن لائن)بورس جانسن نے اقتدار کی ڈوبتی کشتی چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے، دو دنوں میں برطانوی وزیر اعظم کی کابینہ کے 45 وزرا، مشیران اور سیکریٹریز مستعفی ہو چکے ہیں،برطانوی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم بورس جانسن کی مشکلات میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے، دو دنوں کے اندر کابینہ ارکان، وزرا، پارلیمنٹری پرائیویٹ سیکریٹریز کے استعفوں کی تعداد پینتالیس ہو گئی ہے، کابینہ میں استعفوں کا یہ سلسلہ منگل کو شروع ہوا تھا جب وزیر خزانہ رشی سناک اور وزیر صحت ساجد جاوید نے استعفے دیے، جو بورس جانسن کی حکومت کے لیے زلزلہ ثابت ہو گئے۔مستعفی ہونے والوں میں 3 کابینہ کے ارکان اور 16 وزرا شامل ہیں، جب کہ 20 پارلیمانی سیکریٹری، 4 ٹریڈ انوائے اور پارٹی کا یوتھ وائس چیئرمین شامل ہے، ایک سیکریٹری مائیکل گوو کو بر طرف کیا گیا۔
برطانیہ کی ہوم سکریٹری پریتی پٹیل بدھ کے روز کابینہ کی تازہ ترین وزیر بن گئیں جنھوں نے کنزرویٹو پارٹی کے رہنما کے طور پر بورس جانسن کی حمایت واپس لے لی،برطانوی میڈیا کے مطابق درجنوں برطانوی قانون سازوں کے مستعفی ہونے اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے پر زور دینے کے باوجود بورس جانسن اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں، حکومت سے وزرا اور معاونین کے تاریخی اخراج اور دیرینہ اتحادیوں کے شدید دبا کے درمیان بھی انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کے لیے جدوجہد ترک نہیں کی۔
ہاﺅس آف کامنز میں اپنے استعفی کے خطوط اور تقاریر میں، وزرا نے کہا کہ وہ جانسن اور ان کے اسکینڈلز سے تنگ آ چکے ہیں، ایک سابق اہل کار نے کہا کہ بہت ہو گیا۔برطانوی وزیر اعظم کی حکومت اس وقت بری طرح ڈانوا ڈول ہے، برطانوی پارلیمنٹ میں بائے بائے بورس کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ بورس جانسن کے جانے کا وقت ہے۔ لارڈ قربان حسین نے دعوی کیا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کے قریبی ساتھی استعفے کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔