بنگلہ دیشی

بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں پر میگا کرپشن کا الزام

ڈھاکہ (عکس آن لائن) بنگلہ دیش کے سینیئر سکیورٹی حکام پر رشوت خوری کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔الجزیرہ ٹی وی کے مطابق اْسے کرپشن کا یہ اسکینڈل بے نقاب کرنے میں دو سال لگے۔ چینل نے ”آل دی پرائم منسٹرز مین” کے عنوان سے اپنی یہ تحقیقاتی رپورٹ گزشتہ ہفتے جاری کی تھی۔رپورٹ میں ملک کے وزیر داخلہ، پولیس کے کمشنر اور انسپکٹر جنرل کو رشوت خوری کے اسکینڈل میں ملوث دکھایا گیا ہے۔ساتھ ہی بنگلہ دیشی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عزیز احمد پر الزام سامنے آیا ہے کہ انہوں نے اپنے دو بھائیوں کو ملک سے فرار کرانے اور بیرون ملک ان کا بڑا کاروبار قائم کرنے میں ان کی مدد کی۔جنرل عزیز کے بھائی، حارث اور انیس احمد، پر 1996 میں اپنے ایک سیاسی مخالف کے قتل کا الزام تھا۔ تاہم حارث کسی طرح مشرقی یورپی ملک ہنگری اور انیس ملائیشیا فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔رپورٹ کے مطابق ہنگری پہنچنے کے بعد حارث نے اپنی شناخت بدل لی اور وہاں سے یورپ میں پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا۔ اس کام کے لیے انہیں بنگلادیش میں کرپشن سے کمائی جانے والی بھاری رقوم ملتی رہیں۔الجزیرہ کے مطابق ان بھائیوں نے بنگلہ دیش حکومت میں اپنے واسطے داری کے ذریعے سرکاری ٹھیکے من پسند لوگوں کو بیچے اور کمیشن کمایا۔ چینل کے پاس موجود ریکارڈنگ سے یہ بھی واضح ہوا کہ انہوں نے مبینہ طور پر ملک کی پولیس فورس میں اعلیٰ حکام کے ساتھ مل کر ہزاروں ملازمتیں پیسوں پر بیچیں۔الجزیرہ کا کہنا ہے کہ جنرل عزیز کا شمار وزیراعظم شیخ حسینہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے .

جبکہ ان کے دونوں بھائی اس دور میں شیخ حسینہ کے باڈی گارڈ رہے ہیں جب وہ اپوزیشن میں تھیں۔رپورٹ میں وزیراعظم پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے کرپشن کے اس کاروبار کو سیاسی تحفظ مہیا کیا۔الجزیرہ کی رپورٹ نشر ہونے کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے ایک بیان میں شیخ حسینہ اور حارث احمد کے درمیان کسی تعلق کی سختی سے تردید کی ہے۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہاکہ اس بات کو کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم یا ملک کے ریاستی اداروں کا اس شخص کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔حکومت نے الجزیرہ کے دیگر الزامات کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ ‘غلط’ ہے اور اس کا مقصد حکومت کو ‘بدنام’ کرنا ہے۔ حکومت کے مطابق اس رپورٹ کے پیچھے جماعت اسلامی جیسے ”بنگلہ دیش مخالف اور حکومت مخالف” گروہوں کا ہاتھ ہے۔بنگلہ دیش میں میڈیا نے اس خبر کو نشر کرنے سے بظاہر گریز کیا ہے تاہم اکثر میڈیا ہاؤسز نے حکومت کا وضاحتی بیان نمایاں طور پر چلایا۔ بنگلہ دیش میں صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومتی دباؤ اور ڈیجیٹل سکیورٹی کی آڑ میں تشکیل دیے جانے والے کڑے قوانین کے تحت وہ کھل کر حکومت پر تنقید نہیں کر سکتے اور اکثر سیلف سینسرشپ کا شکار رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں