امریکہ

امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف الفاظ کے مختلف جال بچھائے گئے ہیں، رپورٹ

بیجنگ (عکس آن لائن) چند روز قبل چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون ینگ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ مغرب میں کچھ لوگوں نے چین کی نئی توانائی کی صنعت کے بارے میں نام نہاد ‘حد سے زیادہ پیداواری صلاحیت’ کے نظریے کے ذریعے اسے ایک خطرے کے طور پر پیش کیا ہے جو چین کے لیے ایک الفاظ کا ” نیا جال “ہے۔ امریکہ کی اس منطق کے مطابق، امریکہ کی “حد سے زیادہ پیداواری صلاحیت” میں لاتعداد اشیاء ہیں۔ ہتھیار اور گولہ بارود، ڈالر اور قومی قرض، جھوٹ اور غلط فہمیاں، ہوائی جہاز، مکئی، سویابین، گائے کا گوشت، گیس، اور بہت کچھ، تو کیوں نہ اپنے اوپر حد سے زیادہ پیداواری صلاحیت کا وہی معیار لاگو کیا جائے؟

درحقیقت اس قسم کا “الفاظ کا جال” کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے اپنی بالادستی برقرار رکھنے اور دوسرے ممالک کو دباؤ میں لانے کی ایک حکمت عملی ہے یعنی سب سے پہلے رائے عامہ کی جنگ اور سیاسی جنگ شروع کی جاتی ہے، “الفاظ کا جال” بنایا جاتا ہے،اس کے بعد مخالف کو بدنام کیا جاتا ہے، اور پھر سیاسی، معاشی ،تجارتی اور یہاں تک کہ فوجی حملوں سے حریفوں کو تباہ کیا جاتاہے ۔زیادہ پرانی بات نہیں بس چند سالوں کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی ۔

جارج ڈبلیو بش کے دور میں شروع ہونے والا “برائی کا محور”، اور “چین-روس محور” جسے اب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، اور حالیہ برسوں میں، چین کے خلاف یہ “لفا ظی کی تحریک” شدت اختیار کر گئی ہے۔ “آمریت”، “بھیڑیا جنگجو سفارتکاری”، “زبردستی سفارت کاری”، “معاشی جبر”، “قرض کا جال”، وغیرہ، اور معاشی اصطلاح “حد سے زیادہ پیداواری صلاحیت” جو حال ہی میں مسلسل سنی جا رہی ہے۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کچھ لوگ مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدیوں سے ادب کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے لوگ اب نوبل انعام کے لائق نہیں رہے ہیں بلکہ سب سے نمایاں مصنفین دراصل امریکی دفتر خارجہ میں خدمات انجام دینے والے ہیں ، کیونکہ ان کے “ادبی کارناموں” کو صرف معجزے کہا جا سکتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف الفاظ کے مختلف جال بچھائے گئے ہیں، جن میں ‘معاشی جبر’ ایک بہت بڑا لفظ ہوا کرتا تھا۔ امریکہ میں کچھ لوگوں کے مطابق تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر چین کی پابندیاں “معاشی جبر” ہیں، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو فروغ دینا “معاشی جبر” ہے اور یہاں تک کہ جاپان کی جانب سے جوہری آلودہ پانی کے اخراج کی چین کی مخالفت بھی “معاشی جبر” ہے۔لفظوں کے جال کی یہ امریکی روایت کافی مضحکہ خیز ہے ۔دنیا کو یاد ہے جب سنہ 2003 میں سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے ایک ٹیسٹ ٹیوب پکڑ کر گواہی دیتے ہوئے کہا کہ عراق کیمیائی ہتھیار تیار کر رہا ہے۔

بالآخر امریکہ نے عراق کی طرف سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کرنے کے بہانے ، اقوام متحدہ کو نظر انداز کرکے عراق پر حملہ کیا ۔ امریکہ کے اس طریقہ کار پر ایک خاص بڑے ملک کے صدر نے ایک کلاسیکی جملہ کہا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ ” کولن پاول نے ٹیوب میں جو دکھایا وہ کپڑے دھونے والا ڈٹرجنٹ ہو سکتا ہے “۔

1835 میں میکسیکو امریکہ جنگ سے لے کر 1898 میں یو ایس ایس مین نامی بحری جہاز کے واقعے ، اور 1964 میں ویتنام جنگ سے قبل بیبو خلیج کے واقعے تک، ورثے میں ملنے والے اس “واشنگ پاؤڈر” کو امریکہ کی طرف سے بار بار استعمال کیا گیا ہے، اور اس کا موئثر ہونا بھی بار بار ثابت ہوا ہے تو اس کی وجہ سے امریکہ اس زہریلے”نشے ” میں ڈوب کر اب خود کو باہر نکالنے سے قاصر ہے.

نازی جرمنی کے پروپیگنڈا وزیر پول جوزف گوبیلزنے ایک بار کہا تھا کہ ‘اگر آپ کوئی بڑا جھوٹ بولتے ہیں اور اسے دہراتے ہیں تو لوگ بالآخر اس پر یقین کرنا شروع کر یں گے”۔ اب نازی جرمنی کا خاتمہ ہو چکا ہے،تاہم گوبیلز کا نظریہ آج کے مغربی رائے عامہ کی حقیقت ہے، اور اس نے سیاست دانوں، تھنک ٹینکس اور میڈیا پر مشتمل ایک کار آمد آپریٹنگ صنعتی چین تشکیل دی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں نیوز میڈیا اکثر کچھ دھماکہ خیز خبریں یہ کہتے ہوئے بریک کرتا ہے کہ انہوں نے اندرونی معلومات حاصل کر لی ہیں ۔ تاہم ان میں بہت سی من گھڑت اور جھوٹی خبریں ہوتی ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

لیکن جب بھی امریکہ جھوٹ بولتا ہے تو متاثرہ ملک کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں حقائق استعمال کرنے پڑتے ہیں جس سے جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے میں اکثر کافی وقت لگ جاتا ہے۔اکثر یہ دیر اتنی ہو جاتی ہے کہ عراق جیسا متاثرہ ملک جھوٹ کی زد میں جنگ کا شکار ہو گیا جب کہ افواہ پھیلانے والے ساحل سمندر پر کوک پی رہے ہیں اور” سن باتھ ” لے رہے ہیں ۔

امریکہ کی طرف سے الفاظ کے جال کی تخلیق کے خیال کے بعد ، لوگوں نے خود امریکہ کے نام بہت سی اصطلاحات بھی تیار کی ہیں ، اور یہ پایا ہے کہ یہ اصطلاحات امریکہ کے لئے بالکل مناسب ہیں۔ مثال کے طور پر” گینگ ڈپلومیسی”، جو نیٹو، “فائیو آئیز” اتحاد اور بہت سے دیگر چھوٹے حلقوں کو بیان کرتی ہے ، “لپ سروس ڈپلومیسی”، جو امریکہ کی جانب سے انسداد وبااور ماحولیاتی تحفظ جیسے بہت سے شعبوں میں اپنے ہائی پروفائل وعدوں کو پورا کرنے سے انکار کو بیان کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی ایماندار “انکل سام ” ( (Uncle Sam کو اب انکل سکیم ( (Uncle Scam کہا جاتا ہے جو امریکہ کی دھوکہ دہی کی تاریخ کو بیان کرتی ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا رہنما ہونے کا دعویٰ کرنے والے امریکہ کے حوالے سے اب لوگوں کی امید اور عمدہ اوہام باقی نہیں رہے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیان نے حال ہی میں امریکہ کی جانب سے چین کے نام نہاد “حد سے زیادہ پیداواری صلاحیت کے نظریے” کے جواب میں سیدھے الفاظ میں نشاندہی کی کہ امریکہ کی جانب سے پیش کیا گیا چین کا “حد سے زیادہ پیداواری صلاحیت کا نظریہ” ایک معاشی تصور لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے چین کی صنعتی ترقی کو روکنے اور دبانے کا مذموم ارادہ ہے، جس کا مقصد اپنے ملک کے لئے زیادہ سازگار مسابقتی پوزیشن اور مارکیٹ کا فائدہ حاصل کرنا ہے جو حقیقی معاشی جبر اور غنڈہ گردی ہے۔