اسلام آباد (عکس آن لائن)سپریم کورٹ نے کینیا میں سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کرنے کیلئے وزارت خارجہ سے رجوع کرنے کی ہدایت دیدی۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے صحافی ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا تاثر تھا کہ بیرون ملک افرد سے رابطہ کیا گیا ہے، کچھ لوگوں کے لیے انٹر پول سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب! کیا پیش رفت ہے؟۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پیشرفت رپورٹ جمع کروا دی ہے، اسپیشل جے آئی ٹی نے 41 لوگوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، تحقیقات کینیا، یو اے ای اور پاکستان سمیت 3 حصوں پر مشتمل ہے، جے آئی ٹی نے اب انکوائری کیلئے کینیا جانا ہے، 15 جنوری سے قبل جے آئی ٹی کنیا اس لیے نہیں جاسکی کیونکہ وہاں چھٹیاں ہیں، جے آئی ٹی پہلے یو اے ای اور وہاں سے کینیا تحقیقات کے لیے جائے گی۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کینین اتھارٹی متعلقہ لوگوں کو پیش کرنے کیلئے تیار ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے کینیا کے جن لوگوں سے تحقیقات کرنی ہیں ان کے نام دیے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کینین اتھارٹی نے متعلقہ لوگوں سے تحقیقات کی اجازت دیدی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کل ہی یہ خط لکھا گیا ہے، جے آئی ٹی کو وزارت خارجہ کی مکمل مدد حاصل ہے، کینیا کی اتھارٹیز کے ساتھ رابطے میں ہیں۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کینیا کے ساتھ باہمی قانونی مدد ہے، ہم کوئی مداخلت نہیں کررہے، کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔آئی جی نے کہا کہ ہم نے باہمی قانونی مدد لیے فوری طور پر خط لکھا ہے، اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ خط 2 روز پہلے لکھا ہے، وہ اتنی جلدی کیسے آپ کی مدد کریں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس کا مطلب حکومت نے دیر کی، کوشش کریں کہ قانون کے مطابق کام کریں، مقتول کی پاکستان سے روانگی کی صورتحال کو دیکھنا ہوگا، ممکن ہے کہ باہر کوئی زیادہ وقت نہ ملے، یہاں سے اپنا کام کرکے جائیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے جن 41 لوگوں سے انکوائری کی، کیا وہ پاکستان میں ہیں؟ کیا جے آئی ٹی نے کسی سے ویڈیو لنک کے ذریعہ انکوائری کی ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جو لوگ باہر ہیں ان سے پہلے کینیا جاکر انکوائری ہوگی، کینیا میں ان لوگوں سے تحقیقات کے بعد انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحقیقات کے 3 فیز ہیں، ایک فیز پاکستان، دوسرا دبئی اور تیسرا کینیا ہے، کیا فیز 1 کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیز ون کی تحقیقات تقریباً مکمل ہوچکی ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا تحقیقات مکمل ہونے کا کوئی ٹائم فریم ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے کی ٹائم لائن نہیں دی جاسکتی، جے آئی ٹی پہلے دبئی، پھر کینیا تحقیقات کرے گی۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے سب کے سیکشن 161کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں؟سربراہ جے آئی ٹی نے جواب دیا کہ تمام لوگوں کے بیانات سیکشن 161 کے تحت ریکارڈ کئے گئے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ اگر سیکشن 161 کے تحت بیان ریکارڈ نہیں ہوئے تو پھر اب تک کوئی کام نہیں ہوا، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 41 لوگوں کے بیان سیکشن 161 کے تحت ریکارڈ ہوئے ہیں۔جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ کیا امکان ہے کہ تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضرورت پڑے گی تو یہ آپشن بھی موجود ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ وزارت خارجہ کی جانب سے کینیا کی اتھارٹی کو خط گزشتہ روز کیوں لکھا گیا، وزارت خارجہ خط پہلے بھی لکھ سکتی تھی۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ تحقیقات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہے ہیں، عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے آزادی دے رہی ہے، معاملے کی صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں، عدالت صاف شفاف تحقیقات کیلئے بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی ہے، ارشد شریف کے کچھ ڈیجٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے، کیا جے آئی ٹی کو یہ پتا چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں، پتا چلائیں وہ ڈیجٹل آلات کینین پولیس، انٹیلی جنس یا ان 2 بھائیوں کے پاس ہیں، یہ جے آئی ٹی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لئے وزارت خارجہ سے مشاورت کریں۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے فنڈز فراہم کیے ہیں اور 4 دسمبر کو باہمی قانونی معاونت کے خطوط لکھے ہیں، وفاقی حکومت پْرامید ہے کہ باہمی قانونی تعاون کے خطوط پر ممالک سے اچھا ردعمل آئے گا، جے آئی ٹی نے اب تک 41 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، اصل ایشو ارشد شریف قتل کی تحقیقات کا تعلق غیر شواہد کا ہے، امید کرتے ہیں جے آئی ٹی معاملے پر اچھی طرح تیار ہو کر تحقیقات کے لیے بیرون ملک جائے گی۔بعدازاں عدالت نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل سپریم کورٹ میں صحافی ارشد شریف قتل کے ازخودنوٹس کیس 5 جنوری کو سماعت کیلئے مقرر کیا گیا تھا۔قبل ازیں 8 دسمبر 2022 کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے جنوری کے پہلے ہفتے میں کیس کی سماعت دوبارہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔عدالت نے صحافی کے قتل کی مؤثر غیر ملکی رابطے کو یقینی بنانے کے لیے تحقیقاتی ٹیم کو ہدایت دی تھی کہ اگر جے آئی ٹی کو تحقیقات میں کوئی رکاوٹ پیش آرہی ہے تو وہ براہ راست چیف جسٹس کے دفتر سے رجوع کر سکتی ہے۔یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے قومی اور بین الاقوامی عدالتی دائرہ کار میں مؤثر غیر ملکی رابطے اور شواہد جمع کرنے کو یقینی بنانے کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔