اسلام آباد (عکس آن لائن ) وزیرخزانہ شوکت احمد ترین نے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول اور توانائی کے شعبے میں بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہے، پیداواری صلاحیت میں اضافہ معاشی استحکام میں معاﺅن ثابت ہو گا زرمبادلہ کے ذخیر میں اضافہ معاشی بہتری کا عکاس ہے ، آئندہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مراعات دیں گے ٹیکس دینے والوں پر اضافی بوجھ نہیں ڈالیں گے مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا،ایف بی آر کے ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کےلئے یونیورسل سیلف اسسیمنٹ اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کا نظام لا ئیں گے ،
توانائی کے شعبے میں بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہے ، مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا ، ٹیکس چوری کرنے والوں کا جدید ٹیکنالوجی اور بجلی کے بلوں سے سراغ لگایا جائے گا، ہم ترکی کی طرح معاشی ترقی کے خواہاں ہیں جس نے طویل المعیاد اکنامکس پالیسی کی بدولت حاصل کی،حکومت سنبھالی تو معیشت کو شدید بحران کا سامنا تھا تاہم وزیراعظم نے بڑے فیصلے کیے اور اب معیشت بہتر ہے ،آئی ایم ایف پروگرام یقینی طور پر میرے لیے مسئلہ ہے۔اسلام آبادمیں بجٹ ویبینار سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا 60 کی دہائی کے علاوہ ہمارے پاس کبھی پائیدار معاشی پالیسی نہیں رہی۔جب میں نے قلمدان سنبھالا تو چند ماہر معاشیات کو شامل کیا اور ایک اکنامکس ایڈوائزری کونسل ہے میں نے کونسل سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے درخواست کی کہ ان رموز کا معلوم کریں کہ ہمارے پاس پائیدار معاشی پالیسی کیوں نہیں رہی اور اس کے کیا معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اس پر کام ہورہا ہے
آئندہ ہفتے رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی بھی ہوجائے گی۔میں نے ایڈوائزری کونسل کو حکومت کے ساتھ مل کر 12 شعبہ جات میں کام کرنے کا کہا ہے ہمارے پاس طویل المعیاد اور مختصر المعیاد پالیسیاں ہیں، اتنے وسائل نہیں کہ تمام شعبہ جات میں ایک ساتھ کام کریں ۔ 60 کی دہائی میں پاورفل پلاننگ کمیشن تھا اور اسے حکومت کی ماں کا درجہ حاصل تھا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے کمیشن کو غیر موثر کردیا۔شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ میں زرعی شعبے میں غیرمعمولی مراعات دیں گے ہماری ساری توجہ شرح نمو میں بہتری پر مرکوز ہے وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کے لیے بڑے فیصلے کیے اور حکومت سنبھالی تو معیشت کو شدید بحران کا سامنا تھا۔
روپے کی قدر میں اضافے کے لیے ترجیحی اقدامات کیے جبکہ تعمیراتی شعبے سے منسلک 40 سے زائد صنعتوں کو بھی فعال کیا گیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پروگرام بہت مشکل تھا، جب مہنگائی 7 فیصد تھی تب ڈسکاو¿نٹ ریٹ 13.25 فیصد بڑھا دیا گیاحقیقت یہ ہے کہ مجھے اس سے مسئلہ ہے کیونکہ ڈسکاو¿نٹ ریٹ دراصل ضرورت اشیا سے متعلق مہنگائی کو قابو نہیں کرتا اس مد میں قومی خزانے کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور بجلی کے ٹیرف میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا تاکہ گردشی قرضے کم کیے جا سکیں۔گروتھ ریٹ تنزلی کا شکار ہوا اور اس کے بعد کووڈ 19 کی وبا شروع ہوئی تو شرح نمو منفی میں داخل ہوگئی اس دوران حکومت نے احساس پروگرام کے تحت ضرورت اور مستحق افراد میں نقد رقم تقیسم کی اور حکومت نے شعبہ تعمیرات کو اہمیت دی اور اس طرح اس شعبے سے منسلک 40 سے زائد صنعتوں میں معاشی سرگرمیاں بحال رہی جس کی وجہ سے معیشت تھوڑی بحال ہونے لگی، کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ اپنی جگہ رک گیا اور حالیہ برس میں یہ سرپلس میں ہے لیکن اکنامک گروتھ منفی رہی۔وزیرخزانہ نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول ہماری ترجیح ہے، اقتصادی بہتری کے لیے معاشی ماہرین سے بھی مشاورت کی گئی، معیشت کی بہتری کے لیے برآمدات بڑھانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہے جب کہ مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ حکومت نے ریوینیو میں اضافہ کیا، اس سال ریکارڈ 4 ہزار ارب سے زائد ریوینیو جمع کیا گیا تاہم گردشی قرضہ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ آئندہ بجٹ میں زراعت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، کسان دوست پالیسز کے باعث زراعت کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے، ٹیکس چوری کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جائے گا، ٹیکس چوری کرنے والوں کا جدید ٹیکنالوجی اور بجلی کے بلوں سے سراغ لگایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کاٹن کے علاوہ تمام زرعی مصنوعات اور شعبہ ہاو¿سنگ کے ساتھ ساتھ سروسز سیکٹر میں نمایاں بہتری آئی ہے۔