محمد ضمیر اسدی
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا فلیگ شپ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری 2013 میں پاکستان اور چین کے مشترکہ تعاون سے 2013 میں شروع ہونے کے بعد سے اپنی تعمیر کے ابتدائی 10 برس میں عالمی سطح پر ترقیاتی منصوبے کی کامیاب داستان بن کر ابھرا ہے۔
اس بڑے اینشی ایٹو کی 10 ویں سالگرہ پر سی پیک ترقی کے محور اور ترقیاتی بیلٹ کے روپ میں سامنے آیا ہے جس میں فوائد، تعاون، باہمی فوائد اور مشترکہ خوشحالی شامل ہیں۔
چین اور پاکستان کے درمیان جامع نقل و حمل کی راہداری اور صنعتی تعاون کو مرکزی محور ، ٹھوس اقتصادی و تجارتی تعاون، عوام سے عوام تبادلے اور ثقافتی رابطوں کو بطور انجن استعمال کرتے ہوئے سی پیک نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، صنعتی ترقی اور ذریعہ معاش میں بہتری کے لئے بڑے مشترکہ منصوبوں پر ایک مضبوط بنیاد رکھی جس کا مقصد پڑوسی خطوں میں سماجی اقتصادی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کا فروغ ہے ۔
ترقی کے اس مرحلے میں پاکستان نے چین کے ساتھ تعاون، ہم آہنگی، جامع پن ، باہمی فائدے اور پائیداری کے تصورات پر مبنی سدا بہار اسٹریٹجک شراکت داری کو آگے بڑھایا ہے۔
پاکستان نے چین کی اقتصادی ترقی، تبدیلی ، اپ گریڈیشن اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی مشترکہ تعمیر سے پیدا شدہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ وژن 2025 پر وسیع اتفاق رائے، بڑھتے معاشی و سماجی استحکام اور ملک میں مضبوط ترقی کے ایک نئے دور سے پیدا شدہ سازگار ماحول سے فائدہ اٹھایا ہے۔
اس نے پاکستان کی مارکیٹ، آبادی کی تقسیم اور جغرافیائی تقاضوں کے تحت چین کے صنعتی، سرمائے اور ادارہ جاتی فوائد سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
باہمی مشاورت سے چین اور پاکستان نے مشترکہ ذمہ داریاں اور ثمرات حاصل کیے ہیں، ایک ” ون پلس فور ” تعاون کا نمونہ تشکیل دیا (جس میں سی پیک کو مرکز اور چار ترجیحات یعنی گوادر بندرگاہ، توانائی، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون کے طور پر پیش کی گئی)۔
سی پیک کی ناقابل یقین کامیاب داستان نے چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور اس بڑے اینشی ایٹو میں عملی طور پر معاشی تعلقات کی بنیاد پر ناقابل تقسیم مشترکہ مستقبل کے ساتھ برادری تشکیل دی ہے۔
ترقی کے اس دور میں چین اور پاکستان کی حکومتیں سی پیک منصوبے کی وکیل ، منصوبہ ساز اور رہنما ہیں۔ چین اور پاکستان کے اقتصادی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے سی پیک بارے تجارتی منصوبوں کو مارکیٹ پر مبنی انداز میں چلایا گیا ہے۔ نیم تجارتی بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اور لوگوں کے ذریعہ معاش کے غیر تجارتی منصوبوں میں متعدد شراکت دار کی شمولیت ہوئی اور منصفانہ مسابقت کے ذریعے ان پر عملدرآمد ہوا۔
بامعنی اور مشترکہ مشاورت کے ذریعے چین اور پاکستان نے مشترکہ طور پر منصوبے تیار کیے، منصوبے کی صورتحال اور ان کی متعلقہ سرمایہ کاری اور قرض کے اعتبار سے ذمہ داریاں تقسیم کیں ، منصوبے کی تعمیر ،عملدرآمد ، لاگت، خطرات اور سرمایہ کی واپسی کی بنیاد پر مشترکہ فوائد حاصل کئے۔
ان برسوں میں چین اور پاکستان نے انفارمیشن کنکٹیویٹی کو بھی زبردست فروغ دیا ہے اور مقامی مواصلاتی نیٹ ورکس اور براڈکاسٹ اینڈ ٹی وی نیٹ ورکس کی تعمیر اور آپریشن کے علاوہ دونوں ممالک میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن صنعتوں کو مضبوط بنانے اور انفارمیشن، روڈ اور ریلوے انفراسٹرکچر کی ہم آہنگ تعمیر سے عملی تعاون کو فروغ دیا ہے۔
چین اور پاکستان نے تیل و گیس، بجلی اور پاور گرڈ کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط کیا اور ایندھن سے بجلی ، پن بجلی ، کوئلہ گیسیفیکیشن اور قابل تجدید توانائی کی پیداوار کے بڑے منصوبوں کی تعمیر کو فروغ دینے اور بجلی کی ترسیل نظام پر توجہ مرکز کرکے بجلی کی ترسیل اور رسد کو بڑھایا ۔
سی پیک کے تحت اس تعاون سے تیل اور گیس کے وسائل کی ترقی، چین اور پاکستان کے مربوط وژن اور طلب پر تحقیق میں تعاون کو فروغ ملا ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو بہتر بنایا جاسکے اور تیل کی فراہمی کو متنوع ہوسکے۔
اس نے کوئلے کے حصول اور استعمال بہتر بنایا اور بجلی گھروں کے لئے پاکستان کے اپنے کوئلے کی ترقی اور استعمال پر تحقیق کی ہے کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنے کوئلے کی کان کنی کے شعبے میں توسیع اور اضافے کے لئے ٹیکنالوجی تیار کی اور پن بجلی کی ترقی کا عمل کو تیز کرنے کے لئے دریاؤں کی منصوبہ بندی اور بڑے منصوبوں کی تیاری کے کام کو فعال طور پر فروغ دیا ۔
اس نے مقامی حالات کی بنیاد پر ہوا اور شمسی توانائی کی ترقی کا مشاہدہ کیا اور بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لئے ہائی وولٹیج کلاس پاور گرڈز اور پاور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس کی تعمیر کو مضبوط بناتے ہوئے توانائی کی فراہمی کے مختلف ذرائع قائم کئے اور پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں اعتماد کو بڑھایا ۔
اس تعاون نے توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز سمیت پیداوار، ترسیل اور تقسیم میں درکار سازوسامان کی پیداواری صنعت کو بھی تیار کیا ہے۔
اس مدت میں چین اور پاکستان نے تجارت اور صنعتی شعبوں میں تعاون کو مضبوط کیا، دوطرفہ اقتصادی و تجارتی تعلقات کو وسعت دی اور دوطرفہ تجارتی آزادی کی سطح میں اضافہ کیا۔
سی پیک نے صنعت میں تعاون کو بھی وسعت دی ہے، درآمدشدہ پرزوں اور اجزاء کی اسمبلنگ سے لیکر پرزوں کی مقامی پیداوار تک پاکستان کی صنعتوں کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان میں توانائی کی بچت کرنے والی صنعت کی ترقی بہتربنانے کے لئے چینی کاروباری اداروں کو پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہونے کی ترغیب دی ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس نے کیمیکل اور فارماسیوٹیکل، انجینئرنگ سامان، زراعت، لوہے اور اسٹیل، ہلکی مینوفیکچرنگ اور گھریلو آلات اور تعمیراتی مواد جیسے شعبوں میں صنعتی صلاحیت کے تعاون میں اضافہ کیا اور پاکستان کی مقامی منڈیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مؤثر، توانائی کی بچت اور ماحول دوست آلات کا استعمال کیا اور ساتھ ہی اسے بین الاقوامی مارکیٹ تک مزید وسعت دی۔
سی پیک فریم ورک کے تحت 26 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری، 2 لاکھ 50 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا، گوادر بندرگاہ ، گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کی ترقی، نیشنل گرڈ میں 8 ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ، 510 کلومیٹر شاہراہوں اور 932 کلومیٹر سڑک نیٹ ورک کی تعمیر، 820 کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر لائن بچھانے، 4 ہزار میگاواٹ ترسیل کی صلاحیت کی حامل ایک ایچ وی ڈی سی ٹرانسمیشن لائن اور دیگر بہت سے فوائد نے پاکستان کے سماجی و معاشی منظر نامے کو بدل دیا ہے سی پیک کے اگلے مرحلے اور دہائی میں مزید فوائد آنا باقی ہیں۔
مضمون نگار چائنہ انٹرنیشنل پریس اینڈ کمیونیکیشن سینٹر کے میڈیا فیلو ہیں۔