بیجنگ (عکس آن لائن) چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے آسٹریلیا کا دورہ کیا جس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ یہ چین اور آسٹریلیا کے تعلقات میں مزید “گرم جوشی ” کا باعث بنے گا۔
چینی میڈ یا کے مطا بق گزشتہ 10 سالوں کے دوران دوطرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کی جڑیں اس حقیقت سے منسلک ہیں کہ سابق آسٹریلوی حکومت نے چین پر قابو پانے کے لیے آنکھیں بند کر کےامریکہ کے “پیش رو” کے طور پرکام کیا اور چائنا کے حوالے سے غلط پالیسی اپنائی، جس کی وجہ سے 2018 کے بعد سے چین اور آسٹریلیا کے تعلقات میں سرد مہری آئی ۔
وانگ ای کے دورے کے دوران دونوں فریقوں نے متعدد ملاقاتیں کیں اور مختلف امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ چین نے گزشتہ 10 سالوں کے دوران تعلقات کی ترقی سے حاصل ہونے والے تجربات کا جائزہ لیتےہوئے نشاندہی کی کہ چونکہ چین اور آسٹریلیا کے تعلقات صحیح راستے پر واپس آئے ہیں ، لہذا انہیں مضبوطی سے آگے بڑھنا چاہیے اور پیچھے نہیں جانا چاہیے۔ آسٹریلیا کاکہنا ہے کہ آسٹریلیا اور چین کے تعلقات ، اختلافات کی رو سے بیان نہیں کیے جانے چاہئیں اور دونوں ممالک کو مشترکہ مفادات تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں اگر آسٹریلیا ، چین کے ساتھ جیت جیت تعاون کے تحت ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے بنیادی طور پر “چین پر قابو پانے کے لیے امریکی پیروی” کی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہوگااور تین پہلوؤں پر سخت محنت کرنی ہوگی جن میں سب سے پہلے تو ایک دوسرے کا احترام کرنے اور اختلافات سےدانشمندی سے نمٹنے کی ضرورت ہے. خاص طور پر آسٹریلیا کو چین کے بنیادی مفادات اور بڑے خدشات کا احترام کرنا چاہیے۔
دورے کے دوران چین نے تائیوان، ہانگ کانگ، سنکیانگ، شی زانگ اور جنوبی بحیرہ چین پر اپنے اصولی موقف کی وضاحت بھی کی۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم البانیز نے اس بات پر زور دیا کہ آسٹریلیا نے ہمیشہ ایک چین کی پالیسی پر عمل کیا ہے ، جو آسٹریلیا میں دونوں اہم سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ہے اور اس پر عمل کرنا جاری رکھا جائِے گا۔
چین اور آسٹریلیا ، دونوں ہی ایشیا بحرالکاہل کے خطے اہم ممالک ہیں اور ان میں کوئی تاریخی دشمنی یا بنیادی مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ جیسا کہ چین کی طرف سے زور دیا گیا ہے، چین اور آسٹریلیا کے تعلقات کی ترقیاتی سمت واضح ہے اور ہمیں اس راستے پر مستحکم اور بہتر طور پر بہت آگے تک جانے کی کوشش کرنی چاہیے. یہ دونوں ممالک کے عوام کے مشترکہ مفادات کے عین مطابق ہے اور خطے کے ممالک کی مشترکہ توقعات بھی یہی ہیں۔