بیجنگ (عکس آن لائن)26 اکتوبر کو شینژو-17 انسان بردار خلائی جہاز نے چین کے خلائی اسٹیشن کے لیے اڑان بھری اور شینژو-16 کے خلابازوں نے خلائی اسٹیشن ‘تھیان گونگ’ کا دروازہ کھول کر اپنے ساتھیوں کا گرم جوش استقبال کیا ۔ بیس سال قبل وسیع خلائی دنیا نے پہلے چینی سیاح کا خیرمقدم کیا تھا اور آج چین نے اسی خلا میں اپنا خلائی اسٹیشن بنا لیا ہے۔
شینزو-17 کے خلابازوں کے خلا میں پہنچنے سے چین کا خلائی اسٹیشن مزید اپ گریڈیشن کا آغاز کرے گا اور پھر ایک بڑا، محفوظ ، زیادہ آرام دہ ، آسان ، سمارٹ اور جدید لائف سپورٹ سسٹم کا حامل خلائی اسٹیشن ، چین اور دیگر ممالک کو بڑے پیمانے پر خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی کے تجربات میں مدد فراہم کرے گا۔ “تھیان گونگ” “خلائی شاہراہ ریشم” پر قائم ایک مرکز کے طور پر “بیلٹ اینڈ روڈ “انیشی ایٹو کے شراکت داروں سمیت ان تمام ممالک اور علاقوں کو جو بیرونی خلا کے پرامن استعمال کے لئے کوشاں ہیں ، چین کے خلائی اسٹیشن مشنز میں حصہ لینے پر خیر مقدم کرے گا تاکہ مشترکہ طور پر وسیع کائنات کے لامحدود رازوں کو دریافت کیا جا سکے ۔
انسان بردار خلا بازی کے میدان میں چین کی کامیابی بین الاقوامی خلائی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گی، کیونکہ چین کا انسان بردار خلائی پروگرام بیرونی خلا کے پرامن استعمال کا ایک اہم حصہ ہے، جس کا مقصد کائنات کے بارے میں انسانیت کی سائنسی تفہیم کو بہتر بنانا، انسانی سرگرمیوں کے دائرے کو وسعت دینا اور انسانی تہذیب کی پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہے۔
18 اکتوبر کو چینی وزیر اعظم لی چھیانگ اور پاکستانی نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی موجودگی میں ، چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن اور پاکستان اسپیس اینڈ آؤٹر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن نے خلا کے شعبے میں تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ، جس سے بین الاقوامی قمری تحقیقی اسٹیشن پروگرام میں پاکستان کی باضابطہ شرکت کی نشاندہی ہوتی ہے اور دونوں ممالک کے مشترکہ طور پر بیرونی خلا کی تحقیقات کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ، چین اور بیلاروس نے بین الاقوامی قمری ریسرچ اسٹیشن کے بارے میں تعاون پر ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے ، جو بین الاقوامی قمری ریسرچ اسٹیشن پروگرام میں بیلاروس کے باضابطہ شامل ہونے کا اظہار ہے ۔ چین کے انسان بردار خلائی پروگرام کے ترجمان اور چائنا مینڈ اسپیس انجینئرنگ آفس کے ڈپٹی ڈائریکٹر لین شی چھیانگ کے مطابق چین اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے بیرونی خلائی امور کے درمیان بین الاقوامی تعاون کے منصوبوں کی پہلی کھیپ جلد ہی خلائی اسٹیشن پر تجربات کرے گی اوریورپی خلائی ایجنسی کے ساتھ مشترکہ طور پر نافذ کیے جانے والے 10 خلائی ایپلی کیشن منصوبے بھی منظم انداز میں آگے بڑھائے گی ۔
رواں سال “بیلٹ اینڈ روڈ “انیشی ایٹو کی 10 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے ۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ کے شراکت داروں کے ساتھ گہرے خلائی تعاون کو آگے بڑھایا ہے اور “خلائی شاہراہ ریشم ” کی تعمیر میں نتیجہ خیز کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ رواں سال فروری میں چینی خلائی اسٹیشن پر پرورش پانے والے پاکستانی پودوں کے بیج زمین پر واپس آئے اور انہیں پاکستان کے حوالے کیا گیا جس سے پاکستان کی خلائی افزائش نسل پروگرام کے لیے ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے ۔ اس طرح کے تعاون کی کامیابیاں نہ صرف چین پاکستان خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی تعاون کی تاریخ میں درج کی جائیں گی بلکہ “خلائی شاہراہ ریشم” کی تعمیر کو فروغ دینے میں بھی ایک شاندار باب لکھیں گی ۔
مصر ” بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے تحت چین کے ساتھ سیٹلائٹ تعاون کرنے والا پہلا ملک ہے اور رواں سال جون میں چین کی مدد سے چلنے والے مصر-2 سیٹلائٹ منصوبے کے پہلے سیمپل سیٹلائٹ کی ترسیل کی تقریب چین کی جانب سے تعمیر کردہ مصری سیٹلائٹ اسمبلی اینڈ انٹیگریشن ٹیسٹ سینٹر میں منعقد کی گئی ۔ اس طرح مصر افریقہ کا پہلا ملک بن گیا ہے جس کے پاس سیٹلائٹ اسمبلی، انضمام اور ٹیسٹنگ کی صلاحیتیں موجود ہیں۔
سیٹلائٹس، گراؤنڈ اسٹیشنز اور خلائی اسٹیشن پر قائم کردہ ” خلائی شاہراہ ریشم ” بیلٹ اینڈ روڈ کے شراکت داروں سمیت دیگر ممالک کو فائدہ پہنچا رہ ہی ہے ۔ چین کی جانب سے پاکستان کے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ون، بولیویا کے مواصلاتی سیٹلائٹ، لاؤس کے مواصلاتی سیٹلائٹ اور چائنا فرانس اوشینوگرافک سیٹلائٹ کے کامیاب لانچ نے ان ممالک کے لیے ٹیلی کمیونیکیشن، زراعت، ثقافت، ماحولیاتی تحفظ اور موسمیات کے شعبوں میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ -بیدو-3 گلوبل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم ، بیلٹ اینڈ روڈ پارٹنرز سمیت 230 سے زائد ممالک اور خطوں میں 1.5 ارب سے زائد صارفین کو خدمات فراہم کر رہا ہے اور اسے کئی ممالک نے تسلیم کیا ہے۔
چین نے کبھی خلائی بالادستی کی کوشش نہیں کی ۔ چین کے خلائی وسائل کا پرامن استعمال صرف دوسرے ممالک کو ترقی کے مواقع فراہم کر رہا ہے ۔یہ عالمی سائنسی اور تکنیکی ترقی اور جدت طرازی کی کامیابیوں کے اشتراک کو فروغ دے رہا ہے ، دنیا بھر کے ممالک کی خلا کی تحقیقات اور اس کے استعمال کی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے اور انسانی تہذیب کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔