بیجنگ (عکس آن لائن) چین کے قومی محکمہ امیگریشن کے ںائب سربراہ لیو ہائی تھاؤ نے چین کی ریاستی کونسل کے دفتر اطلاعات کے زیر اہتمام “اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینے” کے موضوع پر منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ چین ہائی ٹیک ٹیلنٹ کی ملک آمد و روانگی، مستقل رہائش اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں مزید آسانیاں پیدا کرےگا تاکہ سمندر پار اعلی معیار کے ٹیلنٹس کو ترقی، جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ کے لئے چین کی طرف راغب کیا جائے اور چین میں ان کی طویل مدتی ترقی کے لیے اپنے اعتماد کو بڑھایا جائے۔
یہ چین کی جانب سے اعلیٰ معیار کے کھلے پن کو فروغ دینے اور زیادہ فعال، کھلی اور موثر ٹیلنٹ پالیسی کو نافذ کرنے کا تازہ ترین اقدام ہے۔اس سال کے آغاز میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے گیارہویں اجتماعی مطالعے کی صدارت کرتے ہوئے جنرل سیکریٹری شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ “نئے معیار کی پیداواری قوتوں کی ترقی کے تقاضوں کے مطابق، ہمیں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی اور ٹیلنٹ کی اچھی گردش کو ہموار کرنا ہوگا، اور ٹیلنٹ کی تربیت، تعارف، استعمال اور منطقی بہاؤ کے ورکنگ میکانزم کو بہتر بنانا ہوگا۔
حالیہ برسوں میں، دنیا کے ٹاپ ٹیلنٹ کے بہاؤ میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں. اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ دو سالوں میں 1400 سے زائد چینی نژاد امریکی سائنسدانوں نے امریکہ چھوڑ کر چین واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں مکینکس، میٹریل اور انجینئرنگ سائنس کے شعبوں میں اعلیٰ بین الاقوامی ماہر گاؤ ہواجیئن بھی شامل ہیں جو بیک وقت چائنیز اکیڈمی آف سائنسز ، یوایس اکیڈمی آف سائنسز ، یوایس اکیڈمی آف انجینئرنگ ، یوایس اکیڈمی آف ہیومینیٹیز اینڈ سائنسز ، جرمنی کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز ، یورپین اکیڈمی آف سائنسز اور رائل سوسائٹی آف برطانیہ کے ماہر تعلیم ہیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران 1074 غیر ملکی باصلاحیت افراد نے چین کا رخ کیا ہے جن میں سرفہرست محققین بھی شامل ہیں جو دو یا تین دہائیوں سے امریکہ میں مقیم تھے۔
مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت کے شعبے میں امریکہ کے ٹاپ سائنسدان ڈیوڈ بریڈی اور جاپان کے سیمی کنڈکٹر کے بانی یوکیو ساکاموٹو، جاپان کے “فوٹو کیٹلیسس” کے بانی 81 سالہ اکیرا فوجیشیما اپنی ٹیم کے ہمراہ اجتماعی طور پر چین آئے، جس نے بین الاقوامی تعلیمی برادری کو حیران کر دیا۔ ‘ذہین آواز کے بانی’ ڈینیئل بووی، جنہوں نے امریکہ کی اعلیٰ تنخواہ چھوڑ کر چین کا انتخاب کیا، نے شیاؤمی کے لئے اربوں روپے کی آمدنی پیدا کی ۔ان کا کہنا ہے کہ ‘چینیوں کے ساتھ کام کرنا خوشگوار ہے’۔
ٹیلنٹ قومی ترقی اور مسابقت کی بنیاد ہے۔امریکہ ہی کی مثال لیجئے، اپنے قیام کے بعد صرف 30 لاکھ سے زائد آبادی والے ایک کمزور ملک سے امریکہ کے ابھرنے اور ترقی کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک دنیا بھر سے باصلاحیت افراد کو جذب کرنا ہے۔ امریکہ نے برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی اور دیگر مقامات سے بڑے پیمانے پر تارکین وطن اور باصلاحیت افراد کو جذب کیا ،سال 1900 میں 76 ملین کی آبادی حاصل کی ،اور برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اُس وقت دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بن گیا۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے بڑے پیمانے پر یورپی سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد کو جذب کیا اور جلد ہی دنیا کی سب سے بڑی سائنسی اور تکنیکی طاقت بن گیا۔
اس وقت چین نے دنیا کا سب سے بڑا انجینئرنگ ایجوکیشن سسٹم قائم کیا ہے جس میں انجینئرز کی مجموعی تعداد سال 2000 میں 5.21 ملین سے بڑھ کر 2020 میں 17.653 ملین ہوگئی ہے، جس کی اوسط سالانہ شرح نمو 6.3 فیصد ہے اور مجموعی لیبر فورس میں انجینئرز کا تناسب بھی 2000 میں 0.71 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 2.23 فیصد ہوگیا ہے۔ کچھ اعلی درجے کے شعبوں میں، چین کی سائنسی اور تکنیکی صلاحیتیں مسلسل ترقی کر رہی ہیں. امریکی اعداد و شمار کے مطابق ناسا کی ٹیم کی اوسط عمر 52 سال ہے۔ اس کے برعکس چینی تحقیقی ٹیمیں نسبتاً کم عمر ہیں. چین کے چھانگ عہ فائیو کی خاتون خلائی کمانڈر چو چھن یوئی کی عمر صرف 24 سال ہے جبکہ لانگ مارچ 5 راکٹ ماسٹر کنٹرول سسٹم کے کمانڈرشو شیاؤ ون کی عمر صرف 26 سال ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ چھانگ عہ چاند کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے تمام ارکان کو بھی شامل کرتے ہیں تو بھی اوسط عمر صرف 33 سال ہے۔
ایک طرف چین نے سائنس اور تعلیم کے ذریعے ملک کی ترقی کی حکمت عملی اور اہل افراد کے ساتھ ملک کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی پر مکمل عمل درآمد کیا ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان سائنسی اور تکنیکی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا ہے، دوسری جانب دنیا کے سب سے بڑے صنعتی ملک اور دنیا کے بڑی آبادی والے ملک کی حیثیت سے چین سازگار پالیسی ماحول کے ذریعے اعلیٰ معیار کے عالمی ٹیلنٹ کو بھرتی کر رہا ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی وخوشحالی کی کلید باصلاحیت افراد میں مضمر ہوتی ہے۔ ٹیلنٹ جدت طرازی کا بنیادی عنصر ہے، اور جدت طرازی بنیادی طور پر ٹیلنٹ پر مبنی ہے۔ چین کے متعلقہ محکموں نے بروقت متعلقہ پالیسیاں جاری اور بہتر کی ہیں، جن کا مقصد امیگریشن مینجمنٹ کے شعبے میں ادارہ جاتی کھلے پن کے ذریعے اعلیٰ سطی کھلے پن کو فروغ دینا، غیر ملکی باصلاحیت افراد کو متعارف کروانے کے لیے معاونت اور گارنٹی میکانزم کو بہتر بنانا اور نئی معیاری پیداواری قوتوں کی ترقی کو حمایت فراہم کرنا ہے۔
ہمیں اس بات پر یقین کرنے کی وجہ میسر ہے کہ جیسے جیسے چین ہائی ٹیک ٹیلنٹ کے لئے امیگریشن سسٹم کے قیام کی تلاش کر رہا ہے، ٹیلنٹ کے بہاؤ، استعمال اور کردار میں ادارہ جاتی رکاوٹوں کو دور کر رہا ہے، اور ایک پرکشش اور بین الاقوامی سطح پر مسابقتی ٹیلنٹ سسٹم تشکیل دے رہا ہے، مزید عالمی دانشمندانہ وسائل، اعلی ٹیلنٹ اور اختراعی عناصر چین کے نئے معیار کی پیداواری قوتوں کی ترقی کو فروغ دینے کے عمل میں شامل ہو رہے ہیں۔ چین یقیناً دنیا میں ایک اہم ٹیلنٹ سینٹر اور جدت طرازی کے ہائی لینڈ کے طور پر ابھرےگا۔