اسلام آباد (عکس آن لائن)قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے ووٹنگ ہوئی جس میں وزیر اعظم 180 ووٹ لے کر ایوان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کی تحریک پیش کی۔ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر اسمبلی نے اعلان کیا کہ 180 اراکین نیوزیر اعظم پر اعتماد کے حق میں ووٹ دیا اور قرارداد کو منظور کیا جاتا ہے لہٰذا وزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اگر مفتی عبدالشکور زندہ ہوتے تو یہ عدد 181 ہوتا اور میں اپنے سیکریٹریٹ سے کہوں گا کہ جتنے اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیاہے ان کے نام قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر ڈال دیے جائیں۔اعتماد کا ووٹ حاصل کر نے کے بعد اظہار خیال میں شہباز شریف نے اعتماد کا ووٹ دینے پر تمام اراکین اسمبلی اور زعما کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تحریک اعتماد پر مجھ ناچیز کو ایک مرتبہ پھر عزت سے نوازا اور 180ووٹوں سے مجھے اعتماد کا ووٹ دلوایا جس کے لیے میں سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان شدید مشکلات میں ہے اور وہ میری وجہ سے یا اس ایوان کی وجہ سے نہیں بلکہ 2018 میں اس ملک کی معیشت دنیا میں مانی ہوئی تھی جو بہت تیزی سے ترقی کررہی تھی، اس کے بعد ایک الیکشن کے نتیجے میں آج ہر چیز سامنے آ چکی ہے کہ وہ فراڈ الیکشن کس طرح ہوئے، کس طرح جنوبی پنجاب کے کچھ لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ آپ فلاں کے ٹکٹ چھوڑیں اور دوپٹہ پکڑ لیں۔
انہوںنے کہاکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح آر ٹی ایس کو بند کروایا گیا اور پاکستان کی 75سالہ تاریخ گواہ ہے کہ شہروں کے نتائج ہمیشہ دیہاتوں سے جلدی آتے ہیں لیکن یہ تاریخ کا پہلا الیکشن تھا جس میں دیہاتوں کے نتائج چند گھنٹوں میں آنا شروع ہو گئے اور شہروں کے نتائج مہینوں التوا کا شکار ہوگئے اور جب گنتی کرانے کے لیے درخواست ڈالی گئی تو ایک شخص تھا جس کا نام تھا ثاقب نثار، اس نے حکم دیدیا کہ اس کے بعد کوئی گنتی نہیں ہو گی اور کیا کیا دھاندلی کے لیے انتظامات کیے گئے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جب آج ایوان نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ تو میں آپ کو وہ دن یاد دلانا چاہتا ہوں جب اسی فلور پر اسی وقت کی حکومت کے نمائندوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اپوزیشن کے دھاندلی کے الزام کی مکمل تحقیق ہو گی، آج تک اس کی تحقیق نہیں ہوئی، پانچ سال گزرنے کو ہیں، میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ اس دھاندلی کی بھرپور تحقیقات کرائیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے دیں تاکہ قوم کو پتا لگے کہ کس طرح مینڈیٹ چرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہماری آئی ایم ایف سے بات چیت بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی تو عمران نیازی کے اشارے پر دو صوبائی وزرائے خزانہ کو یہ کہا گیا کہ نئی وفاقی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کیلئے آپ کہہ دیں کہ ہم یہ شرائط نہیں مانتے، یہ وہ سازش ہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔انہوںنے کہاکہ سائفر کو آپ اچھے طریقے سے جانتے ہیں، امریکا کو کس طرح نشانہ بنایا گیا کہ اس نے ساش سے اس حکومت کو بدلا اور یہ ایک امپورٹیڈ حکومت ہے اور کس طرح چین اور روس کے حوالے سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا تاہم وہ ہمدردی کا اظہار نہیں تھا بلکہ مگرمچھ کے آنسو تھے۔وزیر اعظم نے کہاکہ وزیر خزانہ اور دیگر زعما کی کاوشوں سے اس وقت جب میں آپ سے گزارشات کررہا ہوں تو روس میں پاکستان کے لیے سستے تیل کے جہاز میں تیل ڈالا جا رہا ہے اور وہ جلد پاکستان تیل لے کر آئے گا، یہ ہے وہ بدترین سازش جو پاکستان کے خلاف کی گئی۔
انہوں نے کہاکہ ثاقب نثار اور طارق رحیم کی آڈیو لیک ہو کر سوشل میڈیا پر آئی ہے، وہ مین اسٹریم میڈیا پر بھی چل رہی ہے اور وہ سازش کھل کر سامنے آ گئی کہ وہ ثاقب نثار جس نے الیکشن پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے دھاندلی کا بازار گرم کیا، شیخ رشید کے حلقے میں وہ چیف جسٹس نہیں بلکہ ان کے پولیٹیکل ایجنٹ بن کر پہنچ گئے، وہ ثاقب نثار جس نے پاکستان کے اندر ہسپتالوں کا نظام تباہ کردیا، وہ ثاقب نثار جس نے ڈھائی سال دن رات سوموٹو لے کر اس قوم کا حلیہ بگاڑ دیا، وہ ثاقب نثار جس نے پی کے ایل آئی میں اپنے بھائی کو بھررتی کرانے کے لیے اس کا بیڑا غرق کردیا اور جن سینکڑوں مریضوں کی گردوں کی پیوند کاری ہونی تھی، وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔
انہوںنے کہاکہ آج وہ ثاقب نثار جن کا کردار پوری قوم کے سامنے آ گیا ہے، ان کی طارق رحیم سے گفتگو کے بعد کیا کوئی شک رہ گیا ہے کہ یہ سازش میرے خلاف، اس حکومت یا اس ایوان کے خلاف نہیں ہے، یہ پاکستان کے خلاف سازش ہے۔انہوںنے کہاکہ مجھے پارلیمان نے منتخب کیا ہے اور اگر یہ پارلیمان فیصلہ کرتی ہے اور اپنی بحث کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتی ہے اور کابینہ کو پابند کرتی ہے تو میرا فرض ہے پارلیمان کے فیصلے کا احترام کروں، انہوں نے جو فیصلے کیے ہیں، جو قررادادیں انہوں نے پاس کی ہیں، میں اور میری حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔