اسلام آباد (نمائندہ عکس)وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ 2013میں نواز شریف کے دور حکومت میں سی پیک کے منصوبہ پر عملدرآمد کیلئے مجھے ذمہ داری سونپی گئی، 2013سے 2018کے درمیان 129ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے دنیا کو حیران کردیا ، لوگوں کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ صرف کاغذ کی حد تک ہوگا اور پاکستان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ معاہدے کو حقیقت کاسانچے میں ڈال سکے، اس منصوبہ کو چینی صدر اور سابق وزیراعظم نوازشریف کی قیادت میں مختصر وقت میں ہمکنار کیا ۔جمعرات کو اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2013میں سی پیک پر کام شروع کیا تو ملک میں 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری تھا ۔ روز کسی علاقے میں خودکش حملہ آور تباہی پھیلانا جس دوران درجنوں افراد پانی جان سے گئے ، اس وقت سکیورٹی خدشات کے باعث کوئی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے تیار نہ تھے ۔ نواز شریف نے سی پیک منصوبہ شروع کرکے ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔ سی پیک منصوبے سے ملک میں خوشحالی آئیگی ۔ چین نے ہر مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے ہمیں ماڈرن انفراسٹکچر بنانے میں مدد ملے گی ۔ ہم چینی کمپنیوں سے بات کرکے ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ پاکستان کی معیشت کو ریڈزون سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
گرین انرجی کے منصوبوں کو ترجیح دیں گے ۔ ہم نے اپنے تمام پراجیکٹس کے ذریعے ماحول سے کم سے کم منفی اثرات کو یقینی بنائیں ۔ اور پراجیکٹس کے ذریعے گرین اکانومی کے تسلسل کو بڑھا سکیں ۔ چینی قیادت نے بھی اسے چیلنج کرتے ہوئے قومی اور عالمی ترجیح بنایا ہے ۔ آنے والے دنوں میں پاکستان اور چین گرین اکانومی کے منصوبوں ترویج دیں گے ۔ ہمارا فوکس بھی گرین ڈویژنل انرجی اور سولر انرجی کو اس میں شامل کیا جائے ، وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ہم چین کی ترقی کے مداح ہے ، 1980میں چین کی فی کس آمدنی 200ڈالر تھی ۔ جبکہ پاکستان کی 300ڈالر تھی ۔ آج چین کی فی کس آمدی 12500ڈالر ہے ۔ جبکہ ہماری 1500ڈالر ہے ، ہمارے برادر ملک چین نے ترقی کی راہ میں بہت معجزہ کیا ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں نہ کرسکے ۔ میںنے چین کی سینئر لیڈر نے ان کی ترقی کاراز پوچھا تو انہوں نے معتبرانہ جواب دیا کہ سیاسی استحکام ،ل سماجی ، یکجہتی اور پالیسیوں میں تسلسل کو قائم رکھیں ۔ اگر یہ تین چیزیں ملک میں نہ ہوں تووہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔
جنہوں نے یہ کام کیا وہ کیا کامیاب ہیں ۔ اگر ہم معیشت کوئی 10اور ٹی 20کے فارمیٹ میں کھیلیں گے تو کہیں بھی نہیں پہنچ سکتی ،اقتصادی ترقی کو ٹیسٹ میچ کی طرح نہیں کھیلا جاتا ۔ گزشتہ سالوں میں ٹی 10اورٹی 20کے فامیت کے ذریعے کام کرتے رہے اس لئے پیچھے رہ گئے ،آج ملک میں کئی قرضے آن پڑے ہیں۔ اصل آزادی مضبوط معیشت ہے ، اگر ملکی معیشت مضبوط نہ ہو تو ملکی اداروں اور خودمختاری کا تصور خوش فہمی ہے ، اگر ہم حقیقی معنوں میں آزادی چاہتے ہیں۔ تو ملکی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا