لاہور(عکس آن لائن) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاکستان کی عوام کو پہلے بھی غیر محسوس کردار نظر آرہے تھے لیکن اب غیر محسوس کردار پیچھے ہٹ رہے ہیں ، جب وزراء کو جواب نہیں دیا گیا تو اور لوگوں کو بھجوایا جارہا ہے لیکن پی ڈی ایم بالکل کلیئر ہے کہ جعلی حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے ، یہ اب پی ڈی ایم سے این آر او مانگ رہے ہیں جو انہیں نہیں ملے گا،
تاریخ سے ثابت ہے کہ شہباز شریف ہمیشہ اپنے بھائی اور پارٹی کے وفادا ررہے ہیں ، اگر وہ دھوکہ دیتے تو آج یہ نالائق وزیر اعظم نہ ہوتا بلکہ وہ وزیر اعظم ہوتے ، مسلم لیگ (ن) میں ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں لیکن پی ڈی ایم جو بھی حتمی فیصلہ کرے گی ہم اس کی پابندی کریں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیپلز پارٹی کی شہید چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کیلئے سندھ روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سینئر رہنما سینیٹر پرویز رشید اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب سمیت دیگر بھی موجود تھے جو ان کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔
مریم نواز نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جمہوریت کیلئے بڑی قربانیاں ہیں ،انہوںنے ملک کے لئے بڑی بہادری سے اپنی جان دی ، میرے لئے فخر کا مقام ہے کہ مجھے ان کی برسی میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے ۔ بینظیر بھٹو شہید اور نواز شریف نے اس ملک کو جو میثاق جمہوریت دیا تھا اس سے تاریخ تبدیل ہو گئی ، میں ، بلاول اور دیگر جماعتیں اسے آگے لے کر بڑھیں گے اور مزید مضبوط کریں گے کیونکہ یہ پاکستان کی ضرورت ہے ، آج پاکستان میں تقسیم بڑھ گئی ہے اور ملک کو یکجہتی کی ضرورت ہے ،پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اپنے اپنے منشور اور نظریہ ہے لیکن پاکستان کی خاطر سب اکٹھے ہیں ۔
ا نہوںنے محمد علی درانی کی شہباز شریف سے جیل میں ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ جب وزراء کو جواب نہیں دیا گیا تو اور لوگوں کو بھیجا جارہا ہے ، میاں صاحب نے اٹل فیصلہ کر لیا ہے، مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم بھی کلیئر ہے کہ اس جعلی حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے ، یہ پی ڈی ایم سے این آر او مانگ رہے ہیں جو انہیں نہیںملے گا ۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف تو جیل میں ہیں ، کون ملنے آرہا ہے اس کا اچانک بتایا جاتا ہے پھر انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ معلوم نہیں ہوتا جو ملنے آرہا ہے وہ کیا کہنے آرہا ہے ، وہ کیا بات لے کر آرہا ہے ۔ ویسے تو خاندان کے افراد کو ملنے کی اجازت نہیں لیکن ایسی ملاقات کے لئے بغیر کسی تحقیقات اور بغیر کسی ایشو او ر رکاوٹ کے کوٹ لکھپت جیل کے راستے کھل جاتے ہیں ، اس سے چیزیں واضح ہو جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت ہی دھاندلی کی پیداوار ہے ، اس کی کارکردگی انتہائی بری ہے ، یہ 2018میں میں ووٹ نہیں لے سکی تو 2020ء میں کیسے ووٹ لے سکے گی ، ناکام کو گھر جانا پڑے گا ، یہ سینیٹ انتخابات کو آگے کریں یا پیچھے کریں، خفیہ کریں یا شو آف ہینڈ کریں انہیں جانا پڑے گا۔
کابینہ اور ترجمانوں کے اجلاس میں سلیکٹڈ ملک کو درپیش مسائل اور بحرانوں کو زیر بحث نہیں لا تا بلکہ یہ زیر بحث آتا ہے کہ بلاول مردان نہیں گیا پی ڈی ایم میں دڑاڑ پڑ گئی ، میں تو یہ کہتی ہوں کہ اب اس کی ذہنی حالت پر رحم آتا ہے ، اس طرح دڑاڑ کی امیدیں لگانے سے شکست خوردہ ذہنیت کی نشانی ہے ۔ انہوں نے اراکین اسمبلی کے استعفوں سے دستبرداری کے سوال کے جواب میں کہا کہ مرتضیٰ جاوید عباسی اور سجاد اعوان کے بارے میں تو گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ جب یہ طے ہوا ہے کہ اراکین اسمبلی 31دسمبر کو قیادت کو استعفے جمع کرائیں گے اور پی ڈی ایم طے کرے گی کہ سپیکرز کے پاس کب استعفے جمع کرانا ہیں تو پھر یہ حیرانی نہیں استعفے پہلے کیسے آگے پہنچ گئے ۔
مجھے صوبائی اراکین کے 159استعفے موصول ہو چکے ہیں جبکہ ایک خاتون وینٹی لیٹر پر ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے بھی 95استعفے موصول ہو چکے ہیں ،آج لوگ حکومت نہیں بلکہ پی ڈی ایم اور (ن) لیگ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ا نہوں نے کہا کہ جے یو آئی میں جو کام کیا گیا وہ بیک فائر کیا ہے ، عوام اب بیوقوف نہیں رہے انہیں بہت شعور آ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے اور اس میں دو رائے ہیں ، یہ رائے مضبوط ہے کہ ہمیں ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لینا چاہیے اگر یہ حکومت جارہی ہے تو ایک دو نشستوں کی قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن حتمی فیصلہ پی ڈی ایم نے کرنا ہے کہ ہمیں انتخاب لڑنا ہے یا نہیں ، اس حوالے سے دو یا تین جنوری کو لاہور میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ ہو جائے گا۔