اسلام آباد (عکس آن لائن)پاکستان کرکٹ ٹیم کے نوجوان لیگ اسپنر عثمان قادر پی ایس ایل 7 میں جنوبی افریقی کرکٹر عمران طاہر کے سی گھے گْر پر عمل کرتے ہوئے حریف بیٹرز کو ٹف ٹائم دینے کے عزم کااظہار کیا ۔ ایک انٹرویومیںپشاور زلمی کی ٹیم میں شامل 28 سالہ کرکٹر عثمان قادر نے کہا کہ انہوں نے 2 سال محنت کرکے کچھ نیا تیار کیا ہے، پی ایس ایل میں وہ سب کو نظر آئے گا۔عثمان قادرنے کہا کہ انہوں نے 2 سال ملتان سلطانز میں عمران طاہر کے ساتھ جو وقت گزارا وہ ان کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا کیوں کہ عمران طاہر سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا، ان کی ٹپس پر کام کیا جس سے انٹرنیشنل کرکٹ میں مدد ملی۔نوجوان لیگ اسپنر نے کہا کہ پی ایس ایل 7 کے لیے کچھ نیا تیار کیا ہے مگر اس بارے میں ابھی بتا دیا تو بیٹسمین تیاری کرلیں گے، جو 2سال کی محنت ہے، وہ اس ٹورنامنٹ کے دوران ضرور نظر آئے گی۔انہوںنے کہاکہ وہ والد جیسے بولر نہیں بن سکتے، والد عبدالقادر ایک لیجنڈ تھے، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ والد کے نقش قدم پر چلیں اور اگر ان کا نصف بھی کرپائیں تو بہت لمبا کیرئیر ہو جائے گا۔
لیگ اسپنر ے کہا کہ شروع میں اس بات کا دباؤ ہوتا تھا کہ وہ عبدالقادر کے بیٹے ہیں، والد کے نام کی لاج بھی رکھنی ہے، خود بھی پرفارم کرنا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اعتماد آتا گیا، والد نے بہت سی ٹپس دی تھیں جن پر آج بھی عمل کرتا ہوں۔قومی کھلاڑی نے کہا کہ والد نے کریز کے ساتھ ساتھ گیند ڈیلیوری کے بھی مختلف انداز استعمال کرنے کا طریقہ بتایا اور کہا تھا کہ اگر بیٹسمین کو پریشان کرنا ہے تو معمولی سا ایکشن تبدیل کرکے گیند پھینکو۔پی ایس ایل پر بات کرتے ہوئے عثمان قادر نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ ایک ایسا ٹورنامنٹ ہے جس کے لیے ہر پلیئر منتظر ہوتا ہے، ہر پلیئر پرجوش ہوتا ہے کیوں کہ اس پلیٹ فارم پر پرفارمنس دے کر پلیئر انٹرنیشنل کرکٹ میں آجاتا ہے، پشاور زلمی کی جانب سے اپنا بہترین دینے کی کوشش کروں گا۔نوجوان اسپنر نے کہا کہ ان کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ اس بار پی ایس ایل میں اپنی بولنگ کو اور بہتر کروں اور زیادہ سے زیادہ میچز کھیلوں، جب زیادہ میچز ملیں گے تو بولنگ بھی بہتر ہوگی اور ٹاپ پر آنے کا چانس بھی ہوگا، ہر پلیئر چاہتا تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ رنز بنائے یا سب سے زیادہ وکٹیں لے مگر ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام میچز بھی کھیلے، اگر پورے میچز نہیں ملتے تو پھر اہداف حاصل نہیں ہوتے۔
عثمان قادر نے بتایا کہ وہ ایک موقع پر پاکستان میں اپنی کرکٹ کو الوداع کہہ چکے تھے اور آسٹریلیا میں کیرئیر شروع کرنے لگے تھے مگر لاہور قلندرز کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ انہیں دوبارہ پاکستان کرکٹ میں لے کر آئے اور آج وہ پاکستان ٹیم کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل میں انٹرنیشنل اور ٹاپ پاکستانی پلیئرز کے ساتھ ڈریسنگ روم شیئر کرتے ہیں، دنیا بھر کے ٹاپ کوچز کی نظر میں ہوتے ہیں جس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔عثمان قادر نے بتایا کہ جب 2019 میں بگ بیش کھیل کر پاکستان واپس آیا تھا تو والد نے اس وقت کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلوں، اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا اور ان کی بات بطور آخری خواہش ذہن میں رہ گئی۔انہوں نے کہا کہ ایک چیز جس نے ان کا ساتھ دیا وہ ان کا حوصلہ تھا، انہوں نے یہ ہی سیکھا کہ ہمت کبھی نہیں ہارنی اور اگر ایک پلیئر ہمت نہیں ہارتا تو اس کو اس کا ہدف ضرور ملتا ہے۔ایک سوال پر نوجوان کرکٹر نے کہا کہ وہ تینوں فارمیٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں مگر ٹیسٹ کرکٹ میں آنے سے قبل ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فرسٹ کلاس میچز کھیل کر ریڈ بال کا تجربہ حاصل کریں کیوں کہ طویل دورانیے کی کرکٹ آسان نہیں، اس میں تحمل اور کنٹرول بہت اعلی پائے کا درکار ہوتا ہے۔
عثمان قادر نے کہا کہ وہ آسٹریلیا کی ٹیم کی آمد پر بہت خوش ہیں، اچھی بات ہے کہ طویل عرصے بعد ایک بڑی ٹیم پاکستان آرہی ہے، امید ہے کہ سب کچھ پروگرام کے مطابق رہے، آسٹریلیا ورلڈ کپ اور ایشیز جیتی ہوئی ٹیم ہے اس کو ہوم گراؤنڈ پربھی آسان نہیں لے سکتے ، مقابلہ سخت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اگر موقع ملا تو وہ بھی آسٹریلیا کی خلاف اپنے والد عبدالقادر کی طرح پرفارم کرنا چاہیں گے۔اس موقع پر انہوں نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے مزید کہا کہ والد ہمیشہ کہتے تھے کہ اگر بڑا نام کرنا ہے تو بڑی ٹیم کے خلاف پرفارم کرو۔