تہران(عکس آن لائن)ایران عالمی برادری کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔امریکا کے صدر جو بائیڈن اگرایرانی نظام کے خلاف عاید پابندیوں میں نرمی کرتے ہیں تو یہ ان کی ایک بڑی غلطی ہوگی۔یہ بات امریکا کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے عرب ٹی وی سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی ۔انھوں نے صدر بائیڈن اور ان کو مشیروں کو متنبہ کیا کہ وہ سابق صدر براک اوباما والی غلطی کا اعادہ نہیں کریں۔ انھوں نے ایران کو خطے کی ایک قوت قرار دیا تھا۔انھوں نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے،جوزف بائیڈن کی صدارت کا ایران کی جانب زیادہ مائل ہونا سابق صدر اوباما کی سوچ ہی کا اعادہ ہوگا۔ان کی سوچ یہ تھی کہ ایران ہی خطے کی ایک عظیم قوت ہے اور یہ ایران ہی ہوگا جو مشرق اوسط بھر میں استحکام کی چٹان ثابت ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ سوچ اصل سچائی کے بالکل الٹ ہے مگر اس کا ایران کے عوام یا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔چناں چہ یہ سوچ کہ موجودہ نظام کے تحت ایران مشرقِ اوسط میں ایک ذمے دارانہ کردار ادا کرے گا،بالکل گم راہ کن ہے۔
جان بولٹن نے اس انٹرویو میں ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دبا برقراررکھنے کی پالیسی کا دفاع کیا ۔انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ کثیرجہت پابندیاں جو کام نہیں کرسکی ہیں،وہ امریکا کی یک طرفہ پابندیاں بھی نہیں کرسکتی ہیں لیکن ہماری پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے زیادہ مثر ثابت ہوئی ہیں۔تاہم اس کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ امریکا کافی حد تک آگے نہیں گیا ہے،ہم نے کافی دبا نہیں ڈالا ہے۔ان سے جب پوچھا گیا کہ ایرانی نظام کے کردار میں تبدیلی کے لیے اور کیا کیاجاسکتا ہے؟ جان بولٹن کا کہنا تھا کہ مقصد ایرانی نظام کو توڑنا ہونا چاہیے۔اس کام کے لیے بیرونی فوجی مداخلت کی ضرورت نہیں ہوگی۔جان بولٹن نے خبردار کیا کہ اگر صدربائیڈن دوبارہ جوہری سمجھوتے میں شامل ہوتے ہیں اور ایران کی جانب سے اس کی پاسداری نہیں کی جاتی تو یہ ایک طرح سے مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوگا۔جان بولٹن نے ایران کے حمایت یافتہ یمنی حوثیوں کے نام کا امریکا کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست خارج کرنے پر بائیڈن انتظامیہ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔