کراچی/لاہور/اسلام آباد(عکس آن لائن)پیپلزپارٹی کے بانی وچیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیالیسویں برسی اتوار کو ملک بھر میں منائی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد انیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور انیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لا کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔
کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں ابھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز انیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائز رہے، ستمبر 1965میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔جنوری 1966میں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔قائد عوام نے دسمبر انیس سو سڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔
عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب انہی کا خاصا تھا۔انیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971میں پاکستان کے صدر اور پھر 1973میں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، انہوں نے انیس سو تہتتر میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں انکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی انکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔
پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد انیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی انیس سو ستتر کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کردیا۔ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977کو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔پاکستانی سیاست کے افق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل انیس سو اناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی ان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔