بیجنگ (عکس آن لائن)چینی وزارت خارجہ کی یومیہ پریس کانفرنس میں سوال پوچھا گیا کہ گزشتہ روز سنہوا نیوز ایجنسی نے “امریکی جبری سفارتکاری اور اس کے نقصانات” کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی اور اسی دن امریکی حکومت کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ جی سیون سربراہ اجلاس کے اعلامیے میں چین کے “معاشی جبر” پر تشویش کا اظہار کیا جائے گا۔ ترجمان کا تبصرہ کیا ہے؟
جمعہ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
ترجمان وانگ وین بین نے کہا کہ امریکہ دوسرے ممالک پر یہ الزام لگانے کا عادی ہے کہ وہ بڑی طاقت کی حیثیت، جبری پالیسیوں اور معاشی جبر کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک کو بلیک میل کرتے ہیں اور جبری سفارتکاری کرتے ہیں۔ درحقیقت امریکہ جبری سفارتکاری کا آغاز کرنے والا ملک ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سیاسی، اقتصادی، فوجی، ثقافتی اور دیگر شعبوں میں روک تھام کے لئے امریکہ نے دنیا بھر میں جبری سفارتکاری کا استعمال کیا ہے اور دنیا کے تمام ممالک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
اگر جی سیون سربراہ اجلاس میں معاشی جبر پر بات ہو رہی ہے تو آئیے اس بات پر بات کرنی چاہیے کہ امریکہ دیگر چھ رکن ممالک پر کس طرح دباؤ ڈالتا ہے۔ وانگ وین بین نے نشاندہی کی کہ بڑی تعداد میں حقائق اور اعداد و شمار کی بنیاد پر، مزکورہ رپورٹ دنیا بھر میں جبری سفارتکاری کو فروغ دینے میں امریکہ کے برے کاموں کو مکمل طور پر بے نقاب کرتی ہے، اور بین الاقوامی برادری کو امریکی جبری سفارتکاری کی تسلط پسندانہ نوعیت کو مزید سمجھنے کی اجازت دیتی ہے، اور اس کے اقدامات سے تمام ممالک کی آزادی اور ترقی، علاقائی استحکام اور عالمی امن کو ہونے والے شدید نقصانات پر روشنی ڈالی گئی۔
وانگ وین بین نے کہا کہ چین نے کبھی بھی جبر اور غنڈہ گردی میں حصہ نہیں لیا اور ہمیشہ بالادستی، یکطرفہ پسندی اور جبری سفارتکاری کے خلاف واضح موقف اختیار کیا ہے، اور ہم جی 7 پر زور دیتے ہیں کہ وہ کھلے اور جامع دور کے عمومی رجحان کے مطابق جبری سفارتکاری میں ملوث نہ ہو۔