چیف جسٹس

ججز پر انگلیاں اٹھانا اور الزامات لگانا بند کردیں، جس شخص سے مسئلہ ہو آکر مجھے بتائیں، چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ عکس)سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ججز پر انگلیاں اٹھانا اور الزامات لگانا بند کردیں، جس شخص سے مسئلہ ہو آکر مجھے بتائیں، دروازے سب کیلئے کھلے ہیں،وائس چیئرمین پاکستان بار کا ججزکو تنخواہ دارملازم کہنا انتہائی نامناسب ہے،میرے رجسٹرار کا 20 سالہ تعلیمی تجربہ ہے، بینچز کی تشکیل میں کرتا ہوں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی محمد امین کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ انہوں نے پاکستان کے وائس چیئرمین بار کونسل کی تقریروں پر سخت ردعمل دیا۔انہوں نے کہا کہ وائس چیئرمین پاکستان بار کا ججزکو تنخواہ دارملازم کہنا انتہائی نامناسب ہے۔انہوں نے کہا کہ ججز پر الزام تراشی کرنا ان فئیر اور انتہائی نامناسب ہے، عام طور پر سخت الفاظ استعمال نہیں کرتا، ججز رولز کمیٹی میں میرے برابرجج نے طریقہ کار پر اتفاق رائے کیا، ججزکیلئے سب سے اہم ان کی دیانتداری،اہلیت اور قابلیت ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جج کا تحمل اور اس کی ہرقسم کے اندرونی یا بیرونی دباؤ سے آزادی اہم ہے، براہ راست مجھ سے آکربات نہیں کرسکتے توآپ محض اخباروں کی زینت بننا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کون سی عدالتی پریکٹس پر اعتراض ہے؟ میرے دروازے آپ کیلئے رات 9 بجے بھی کھلے ہیں، ہم یہاں اہلیت،قابلیت،دیانتداری کی وجہ سے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری تقرری غیرجانبدارنہ ہوتی ہے، ہم بنا کسی دباؤ سے کام کرنے والے لوگ ہیں، میرے رجسٹرار کو گالیاں دینا بند کریں، میرے رجسٹرار کا 20 سالہ تعلیمی تجربہ ہے، بینچز کی تشکیل میں کرتا ہوں۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججزتقرری کے اصول وضع کیے جائیں، عدلیہ میں اہل وکلا کو جج بھرتی کیا جانا چاہیے،صدرسپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ سینئرجج جسٹس فائزعیسیٰ کے خط سے تاثرملتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کا عنصرہے، امید ہے چیف جسٹس پاکستان عدلیہ کی تقسیم کا عنصرختم کریں گے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا انتظامیہ سے لیے گئے افسران کی عدلیہ میں تعیناتی اصولوں کے منافی ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔جسٹس قاضی محمد امین نے فل کورٹ ریفرنس میں الوداعی خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ میں خاتون جج عائشہ اے ملک کی تقرری تاریخی اقدام ہے، 7 دہائیاں یہ سمجھنے میں لگ گئیں کہ صنف اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی کیلئے رکاوٹ نہیں۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میری اہلیہ اور پورے خاندان نے ہر اچھے برے وقت میں ساتھ نبھایا، تمام ججز، اٹارنی جنرل اور بار نمائندگان کا اچھے الفاظ میں یاد کرنے پرشکریہ، اپنے تمام عدالتی اسٹاف کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔فل کورٹ ریفرنس سے وائس چیئرمین پاکستان بار چوہدری حفیظ نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں جسٹس قاضی امین کے فیصلے سے بار میں تشویش پائی جاتی ہے ،جسٹس قاضی امین کے بعض فوجداری فیصلوں کو آئین و قانون سے متصادم سمجھا جاتا ہے،جسٹس منیر سے جسٹس گلزار تک ججز کو تاریخ کیسے یاد کرتی ہے اس سے سب واقف ہیں۔ انہوںنے کہاکہ عدالتی تاریخ میں سیاہ صفحات کی تعدا روشن صفحات سے کم ہے ،بعض ججز منصب بننے کے بجائے سرکاری نوکر بن جاتے ہیں جو باعث تشویش ہے ۔

انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ میں فریقین کو شنوائی کا خاطر خواہ موقع نہیں دیا جاتا ہے،کئی کئی سال سپریم کورٹ میں مقدمات مقرر نہیں ہوتے اور پڑے پڑے غیر موثر ہو جاتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ موجودہ حالات میں ملک ججز کی تقسیم سے ادارے کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا،پوری قوم کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ پر ہیں ،عدالت ایسے فیصلے کرے جس سے آئین کی بالادستی کا بول بالا ہو۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس قاضی امین فوجداری مقدمات کے ماہر مانے جاتے ہیں،جسٹس قاضی امین نے بطور جج فوجداری مقدمات کی سماعت کی۔ انہوںنے کہاکہ جسٹس قاضی امین سول مقدمات پر بھی عبور رکھتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ آئین اور بنیادی حقوق کی محافظ ہے،پاکستان کی عوام کا اعتماد اور بھروسہ سپریم کورٹ پر ہے،سپریم کورٹ بطور ادارہ ایک خاندان کی طرح ہے۔ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات ادارے کے اندر طے ہونے چاہیے،سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سڑکوں، کیفے ٹیریا اور سوشل میڈیا میں زیر بحث نہیں آنا چائیں ۔انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کی پرانی روایات کو برقرار رکھا جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں