فردوس عاشق

توہین عدالت کیس،فردوس عاشق کی معافی کی استدعا مسترد،تفصیلی تحریری جواب جمع کرانے کا حکم

اسلام آباد(عکس آن لائن ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی زبانی طور پر غیر مشروط معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تفصیلی تحریری جواب جمع کرانے کا حکم د یدیا ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میرے بارے میں کچھ بھی کہیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، عدالت نے صرف قانون کے مطابق چلنا ہوتا ہے، عدالت نے کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کرنی ہوتی، ہر جج نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتوں کو پریشرائز کرنے کے لیے وزرا نے کہا کہ ڈیل ہو گئی ہے۔

منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات کو جاری کیے گئے توہین عدالت کے نوٹس کے معاملے پر سماعت کی، اس دوران فردوس عاشق اعوان ذاتی حیثیت میں پیش ہوئیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میرے بارے میں جو کہہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہ توہین ہے اور آپ جانتی ہیں۔انہوں نے فردوس عاشق اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 2014 میں بھی ہمارے بارے میں بہت کچھ کہا گیا، کیا آپ دھرنے میں تھیں؟، جس پر فردوس عاشق اعوان نے جواب دیا کہ نہیں میں دھرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئی۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دھرنے والی درخواست بھی آج سماعت کے لیے لگی ہوئی ہے، یہ عدالت کسی کی حمایت کرے گی بلکہ قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2014 کے دھرنے میں موجودہ صدر عارف علوی نے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف چھٹی کے روز عدالت سے رجوع کیا، عدالت نے ان کی درخواست پر چھٹی کے روز ہی احکامات جاری کیے، عدالت نے تب کارکنوں کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔اس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 20 سالہ کیریئر میں کبھی عدلیہ کے حوالے سے بات نہیں کی۔دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہر جج نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف لیا ہوتا ہے، زیرسماعت معاملے میں الزام لگانا بہت بڑا جرم ہے، جتنا بڑا ملزم ہو منصفانہ ٹرائل اس کا بھی حق ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جواب جمع کرادیا ہے، جس پر معاون خصوصی کے وکیل نے بتایا کہ ابھی تک نہیں کرایا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایسا کریں جواب جمع کرادیں۔عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی عزت ان کے فیصلوں سے ہوتی ہے، مجھے لوگ کہتے ہیں کہ میری گاڑی کی تصویر وائرل ہوئی، تصویر میں موجود سپریم کورٹ کے جج تھے جنہیں مسلم لیگ (ن)کا صدر بنا دیا گیا۔اس پر فردوس عاشق اعوان نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ میں عدالت سے غیرمشروط معافی مانگتی ہوں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنا تحریری جواب جمع کرائیں، آپ کا جو بھی جواب ہو تحریری طور پر ہو۔ساتھ ہی عدالت نے یہ ریمارکس دیے کہ حکومتی لوگ خود کہتے ہیں ڈیل ہو گئی تو ڈیل کس نے کی، ڈیل تو حکومت ہی کر سکتی ہے۔

بعدازاں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو تحریری طور پر جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا اور کہا کہ وکیل کی جانب سے فردوس عاشق کی حاضری سے استثنی کی بات پر کہا کہ ان کو حاضری سے استثنی نہیں دے رہے، ان کا یہاں آنے کا اور بھی فائدہ ہے۔ساتھ ہی عدالت نے تحریری جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں