باب پاکستان کا منصوبہ بیس سے پچیس سال کی تاخیر کا شکار نہیں ہوا ،قومی خزانے سے 110کروڑ بھی دفن ہو چکے ہیں’ شہباز شریف

لاہور(عکس آن لائن)وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ باب پاکستان کا منصوبہ صرف بیس سے پچیس سال کی غیر معمولی تاخیر کا شکار نہیں ہوا بلکہ قومی خزانے سے 110کروڑ روپے اس منصوبے میں دفن ہو چکے ہیں ،میری دعا ہے کوئی بھی نیب کے عقوبت خانے میں نہ جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے گناہ لوگوں کو تو چن چن کر دیوار سے لگایا گیا لیکن اس منصوبے جس میں اربوں روپے غبن ہو گیا کیا نیب نے کسی کو بلا کر پوچھا بھی ہے ،یہ ہے وہ دوہرا معیار جس نے پاکستان کو اس تباہی پر پہنچایا ہے ،جب تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو مل کر دفن نہیں کریں گے یہ ملک آگے چل کر ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ، یہ ایک منصوبہ نہیں ہے اس کے طرح کے بے شمار منصوبے ہیں جن میںاربوں کھربوں روپے دفن ہو چکے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی،

آئی ایم ایف سے معاہدے کی بات چیت کی تکمیل کے بعد آنے والے دنوں میں باتیں کروں گا ،آج بھی ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں لیکن میرا یہ ایمان ہے کہ اگر ہم مل کر دن رات محنت کریں گے تو مشکلات کا سامنا کریں گے اوراشرافیہ جن میں میں بھی شامل ہوتا ہوں اگر سچے دل سے قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرے گی شبانہ روز محنت کرے گی تو ملک کی کشتی جو75سال سے ہچکولے کھاتی آرہی وہ ضرور منجدھار سے نکل کر کنارے لگے گی لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے دن رات محنت کرنا ہو گی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے باب پاکستان کی تعمیر اور والٹن روڈ کی اپ گریڈیشن کاسنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ۔

اس موقع پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی،وفاقی وزراء سردار ایاز صادق ،خواجہ سعد رفیق ، چیف ایگزیکٹو آفیسر سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ عمران امین ، اراکین اسمبلی ، سینیٹرز اور اعلیٰ سرکاری حکام بھی موجود تھے۔اس موقع پر وزیر اعظم کو سی ای او سی بی ڈی عمران امین نے منصوبے پر تفصیلی بریفنگ بھی دی ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ تقریباً پچھلے بیس سے پچیس سالوں میں میرا یہاں کا آٹھواں یا دسواں دورہ ہے ،یہ تاریخی مقام ہم سب کو ہندوستان سے ہجرت کرنے والے لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جنہوںنے خدادا ملک پاکستان کے حصول کے لئے قائد اعظم کی عظیم قیادت میں بے مثال قربانیاں دیں اور راستے میں خون کے دریا عبور کئے ،مختلف مقامات پر جو قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا اس کی مثال عصر حاضر کی تاریخ میں نہیں ملتی، لاکھوں مائوں کے آنچل پھٹے، بزرگوں،جوانوں ،خواتین اور بچوں نے شہادت کا جام نوش کیا تب جا کر یہ خداد ملک پاکستان معرض وجود میں آیا ۔

والٹن وہ مقام ہے جہاں پر ہزاروں مہاجرین نے آ کر قیام کیا اور مقامی لوگوں نے انصار مدینہ کی یاد تازہ کی ،ان کو گلے سے لگایا ، اپنے گھر کا فرد بنایا ان کے لئے کھانا ، دوائی ، رہنے کی جگہ ، چار مہیا کی اور یہ ایک ایسی مثال جسے قیامت تک یاد رکھا جائے گا ۔ 1948میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی یہاں تشریف لائے ، یہ منصوبہ جس نے پوری دنیا کو مختلف حوالوں سے قیام پاکستان کی تاریخ بتانی تھی کہ کس طرح لوگوںنے آنکھوں میں خواب بسایا کہ انہیں پاکستان جا کر فرنگی اور ہندو سے نجات ملے گی ،انصاف محنت او رمیرٹ کی بنیاد ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گاکہ دنیا اس کی تقلید کرے گی ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ 1991ء میں جب نوازشریف وزیر اعظم اورغلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا ،93میں حکومت چلی گئی ،پھر 97میں مسلم لیگ (ن) کا دورہ آیا ،یہاں پر آکر سنگ بنیاد کو آگے بڑھانے کیلئے تیزی سے کام شروع کیا لیکن پھر اکتوبر99آ گیا ۔

2008میں اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں دوبارہ موقع دیا تو میںیہاں پر حاضر ہوا ۔مرحوم جنرل مشرف کے دور میں پنجاب کی حکومت نے اس کا کنٹریکٹ ایوارڈ کیا جس میں اس کا تخمینہ ڈھائی ارب روپے تھا،جنرل مشرف کی خواہش پر پنجاب حکومت نے اس کا کنٹریکٹ ایوارڈ دیدیا ، جب یہاں پر آیا تو لوہے اور سیمنٹ کے کھنڈرات تھے جو بھی آج بھی اسی حالت میں موجود ہیں ، یہ تکلیف دہ اور دکھ بھری کہانی ہے ۔ہم نے اس تاریخی مقام کوبنانا تھا جس میں نہ صرف پاکستان کے چاروں کونوں سے بچے اور طلبہ آتے اور پاکستان کی تاریخ سے آگاہ ہوتے بلکہ دنیا سے بھی لوگ آکر ہماری تاریخ سے آگاہی حاصل کرتے لیکن غریب ملک کے 110کروڑ روپے اس منصوبے میں دفن ہو چکے ہیں اورکھنڈرات وہیں کے وہیں ہیں۔ 2008ء میں آیا تو پریزنٹیشن دی گئی کہ اس کے مینار کے لئے90کروڑ روپے کی سفید گرینائٹ اٹلی سے درآمد کی جائے گی جو پاکستان کے غریب ملک کے زر مبادلہ کے ذخائرسے جانے تھے ۔

میں نے پریزنٹیشن دینے والے سے پوچھا کیا اس کے بغیر قیام پاکستان کی تاریخ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، کیا ہم نے دنیا کو یہ دکھانا ہے غریب پاکستان جہاں تعلیم کا حصول مشکل ہے ،ایک وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے ، ادویات کا مسئلہ ہے یونیورسٹیاں بننی ہیں سڑکیں بننی ہیں ہم نے اس ملک کو ابھی ترقی کی طرف لے کر جانا ہے ،زراعت کو ترقی دینی ہے صنعتیں لگانی ہیں کیا ہم نے دنیا کو دکھانا ہے غریب ملک درآمد شدہ ٹائلوں سے اپنی غربت اور محرومیوں کی عکاسی کر رہاہے ۔مجھے بتایا گیا کہ ہم آرڈر دے چکے ہیں لیکن میں نے کہا کہ یہ ٹائل پاکستان میںنہیں آئے گی۔وہ افسر سیخ پا ہوا اور میری شکایت کر دی اور جو اس وقت دنیا میںنہیں ان کی طرف سے مجھے ان ڈائریکٹ حکم ملا کہ یہی کنسلٹنٹ رہیں گے لیکن میںنے کہہ دیا پھر میں کام چلنے نہیں دوں گا۔

کیا ہمیں احساس نہیں کہ ایک ایک پائی غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے استعمال ہو۔اس وقت کا کنٹریکٹر بھی فراڈ تھا جو ایک گالف کلب کامالک یا بھائی تھا اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن اس کو بغیر بولی کے کنٹریکٹ ایوارڈ کیا گیا ، اس کو بلایا جو پیشگی پیسے لے کر کھا چکا تھا کہ کام شروع کرو ۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہوں گا صرف یہ کہوں گا ان چندناکامیوں جو پنجاب میں میرے کھاتے میںلکھی جائیں گی اس کی جو بھی وجوہات ہیں میں اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں ، میں نے پوری کوشش کی لیکن بات نہ بنی ، جب اگلا دور آیاتو بڑی مشکل سے بات کی لیکن پھر بھی بات بنی نہیں اور یہ انتہائی تکلیف دے بات ہے کہ کھنڈرات وہیں کے وہیںموجود ہیں ، اس میں جو پیسہ ضائع ہوا وہ پاکستان کا ہے ۔

میں آئی ایم ایف سے معاہدے سے بات چیت کی تکمیل کے بعد آنے والے دنوں میں باتیں کروں گا ۔ کس بے دردی اور بے رحمی سے اس منصوبے کو موخر کیا گیا بلکہ تباہ کیا گیا اوراربوں روپے غبن ہو چکے ہیں۔ میں سوال کرتا ہوں اور ایک بات کہنا چاہتا ہوں ،میری ہمیشہ کے لئے دعا ہے نیب کے عقوبت خانے میں کوئی نہ جائے وہاں پر جو نا انصافی روا رکھی گئی جہاں پر پچھلے ادوار میں انصاف کا قتل عام ہوا ،کوئی دشمن میں نیب کے عقوبت خانے میںنہ جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے گناہ لوگوں کو تو چن چن کر دیوار سے لگایا گیا اور ان کو نیب کے عقوبیت خانوں میں بھجوایا گیا یہ منصوبہ جہاں پر اربوں روپے غبن ہو گیا کیا نیب نے بلا کر کسی کو پوچھا بھی ہے ،یہ ہے وہ دوہرا معیار جس نے پاکستان کو اس تباہی پر پہنچایا ہے ،جب تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو مل کر دفن نہیں کریں گے یہ ملک آگے چل کر ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔

جو بہت دلخراش ہے ، یہ ایک منصوبہ نہیں ہے اس کے طرح کے بے شمار منصوبے ہیں جن میںاربوں کھربوں روپے دفن ہو چکے ہیں لیکن مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہمت ہارنے کی کوئی بات نہیں ، مشکلات آتی ہیں،آج بھی ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں لیکن میرا یہ ایمان ہے کہ اگر ہم مل کر دن رات محنت کریں گے تو مشکلات کا سامنا کریں گے اوراشرافیہ جن میں میں بھی شامل ہوتا ہوںسچے دل سے قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرے گی شبانہ روز محنت مظاہرہ کر گی تو ملک کی کشتی جو 75سال سے ہچکولے کھاتی آرہی وہ ضرور منجدھار سے نکل کر کنارے لگے گی لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے ہمیںدن رات محنت کرنا ہو گی ۔شہباز شریف نے کہاکہ اس منصوبے کے لئے سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے ذمہ داران سے میٹنگ ہوئی ہے ، انہوںنے کہا کہ ہم اس منصوبے کے لئے حکومت سے پیسے نہیں لیں گے بلکہ آمدن نکال کر اس سے ملحقہ ڈرین اور جو سڑکیں ہیں اور باقی جو لوازمات ہیں ان کو بھی مکمل کریں گے۔

اس منصوبے کے لئے چار سو اٹھارہ کنال اراضی تھی اورگزشتہ دور میں کمرشل سر گرمیوں کیلئے ایک سو دس کنال اراضی دینا طے پایا لیکن میںنے انہیں کہا ہے یہ منظور نہیںہے ، اس کے بعد 75کنال کہا لیکن میں نے اسے بھی نا منظور کیا جس کے بعد اب 50کنال پر معاملہ طے پایا ہے ، یہ اس کا کمرشل استعمال کریں گے اور باقی جگہ پر پاکستان کے قیام کے تاریخی پس منظر اجاگر کیا جائے گا۔ ہم پاکستانی ہیں بنیں اور اپنی نسلوں کو سنواریں،اس کے ذریعے دین اور دنیا کمائیں اور اس کے بغیر دوسرا کوئی اور راستہ نہیں ۔وفاقی وزیر ریلویزو ایوی ایشن خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ہم 2023میں باب پاکستان کی تاریخی جگہ پرکھڑے ہیں ،یہ وہی مقام ہے جہاں پر ہزاروں کی تعدادمیں مہاجرین لٹے پٹے قیام پاکستان کے موقع پر ہجرت کر کے آئے تھے ، یہاں قیامت کا سماں تھا ،یہاں قائد اعظم تشریف لائے تھے اور انہوںنے مہاجرین کا حوصلہ بڑھایا تھا، اسی جگہ پر زندہ دن لوگوں نے اس وقت اپنے لٹے پڑے مہاجرین بہن بھائیوںکی خدمت کی تھی ۔

یہاں ایک تاریخی یادگار کا خواب غلام حیدر وائیں شہید نے دیکھا اوراگر میں ان کا نام نہ لوں تو یہ زیادتی ہو گی ۔ یہاںمختلف اداروں کی موجودگی تھی ،وائیں صاحب نے منصوبہ بنانے کی کوشش کی لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ دار فانی سے کوچ کر گئے ۔1997ء میں یہاں سے رکن پنجاب اسمبلی بنا تو 1998 شہباز شریف یہاںتشریف لائے اورسارے منصوبے کا جائزہ لیا اور اس کو شروع کرنے کے احکامات جاری کئے ،99ء میں ہماری حکومت رخصت ہوگئی اور کام جہاں چھوڑا تھا وہیںباقی رہ گیا ، اس کے بعد آنے والوں نے اس منصوبے کاحشر کر دیا اور 110کروڑ روپے خزانے کے اس منصوبے میں دفن ہو چکے ہیں ، یہاں کنکریٹ اور سیمنٹ کا ایسا نا مکمل ڈھانچہ کھڑا کیا گیا جس کا کوئی مقصد نہیں تھا ، جب ہم د س برس پھر واپس آئے تو2008ء میں شہباز شریف پھر یہاں تشریف لائے اور فیصلہ کیا کہ یہاں پردرآمد کیا گیا گرینائٹ نہیں لگے گا اورپاکستان کا ماربل استعمال ہوگا اور اس منصوبے کو پبلک فرینڈلی بنائیں ،پھر2017ء آگیا اوربہت کوشش کی لیکن بجٹ میں پیسے رکھے جانے کے باوجود کامیابی نہ ہو سکی ۔

انہوں نے کہاکہ میںسنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے تصور کی بھرپور حمایت کرتا ہوں ،یہ منصوبہ صرف مونو منٹ بنانے کا نہیں ،418 کنال زمین کاگزشتہ دور میں فروخت کا فیصلہ ہوا اس تاریخی منصوبے کیلئے کچھ بھی نہ بچتا یا برائے نام بچتا، پچیس سال تو ہمیں ہو گئے ہیں ،اب نئی حکمت عملی کے تحت والٹن روڈ کا نالہ تقریباً انڈر گرائونڈچلا جائے گا ،اس منصوبے کی پچیس سالہ کی منصوبہ بندی کی گئی لیکن میںنے درخواست کی اسے بڑھایا جائے ،اصولاًتو سو سال کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے لیکن وسائل کا مسئلہ تھا اس لئے اگلے پچاس برس کے لئے منصوبہ بندی کی گئی جس سے ملحقہ آبادیوںکے لاکھوں لوگوں کی زندگی میں آسانی آئے گی ، اس منصوبے سے والٹن روڈ کی بھی شکل بدل جائے گی ، اس منصوبے میں وہ سکول بھی شامل ہیں جنہیں اب اپ گریڈ کر کے ہائیر اورسکینڈری سکول کرنا ہے ، یہاں سپورٹس سمیت دیگر فسیلیٹیز ہوں گی ، اس منصوبے میں بہت سے اداروں کی مشترکہ کاوش ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پہلے میں سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کا حامی نہیں تھا لیکن جب بات کی سمجھ آئی تو کہا ملک کے تمام بڑے شہروںمیں یہ بننے چاہئیں ، یہ اپنے اخراجات بھی خود بھی اٹھائے اور شہروں کے انفراسٹر اکچر کے لئے سرکار کے خزانے میںپیسے بھی دیں گے اور لوگوں کی زندگی میں آسانی ہو گی ،آگے بڑھنے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بڑی اہمیت ہے ، میں سرمایہ کاروں کو یقین دلاتا ہوں وفاقی حکومت سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے منصوبے کی مکمل حمایت کرے گی اورسپورٹ کرے گی اور انہیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہو گی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں