لداخ (عکس آن لائن)لداخ سیکٹر دو ایٹمی طاقتوں انڈیا اور چین کے درمیان نیا محاذ جنگ بن گیا’آنے والے دنوں میں اس خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے’نڈیا اور چین نے بات چیت میں ذرا سی بھی لغزش برتی تو کشیدگی اور بڑھنے کے امکانات ہیں’حالیہ ہفتوں میں چین نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی نوعیت کی نئی تعمیرات کی ہیں’چین بڑے پیمانے پر اضافی میزائل، ٹینک اور راکٹ وغیرہ نصب کر رہا ہے’چین سرحد پر فوجی نقل وحرکت کے لیے کئی مقامات پر ریلوے لائنیں بچھا رہا ہےـتفصیلات کے مطابق انڈیا کے لداخ سیکٹر میں چین کی جانب سے ہتھیاروں اور فوجیوں کی اضافی تعیناتی کی خبروں کے درمیان چین نے الزام عائد کیا ہے کہ انڈین فوجیوں کی چینی سرزمین میں دراندازی کے سبب سرحدی ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ انڈین فوجی چین کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ماضی میں دراندازی کرتے رہے ہیں۔بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘ہماری زمین پر قبضہ کرنے کی غرض سے انڈین فوجی سرحدی علاقے میں ایک طویل عرصے سے ہمارے خطے میں دراندازی کر تے رہے ہیں جو ٹکراؤ اور تنازع کا سبب بنتا ہے۔
یہی انڈیا، چین سرحد پر کشیدگی کا بنیادی سبب ہے۔چین کی طرف سے یہ ردعمل ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب انڈین میڈیا نے حکومت کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ چین مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کی فنگر چار سے فنگر سات کے درمیان بڑے پیمانے پر اضافی میزائل، ٹینک اور راکٹ وغیرہ نصب کر رہا ہے۔یہ خطہ پہلے انڈیا کے کنٹرول میں تھا مگر گذشتہ جون میں ایک خونریز ٹکراؤ کے بعد چین نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔اس وقت سے یہاں ہزاروں چینی فوجی تعینات ہیں۔ انڈیا نے بھی اپنے موجودہ کنٹرول والے علاقے میں ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔سٹیلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں چین نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی نوعیت کی نئی تعمیرات کی ہیں۔
ان تصاویر سے اس علاقے میں نئے ہتھیاروں اور بھاری مشینوں کی موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ چینی فوج نے جھیل میں نگرانی کے لیے گشت کرنے والی کشتیوں کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔گذشتہ دنوں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ لداخ خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ‘انڈیا اور چین کے فوجی کمانڈروں کے درمیان مذاکرات کے نو دور ہو چکے ہیں جن میں کسی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ لیکن اس بات چیت کا زمین پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔دلی یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کی پرفیسر رتوشا تیواری کہتی ہیں کہ یہ واضح ہے کہ جو بات چیت ہو رہی ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے۔’مشرقی لداخ میں گذشتہ چند مہینوں میں جو واقعات ہوئے ہیں وہ سرحد پر ملٹرائزیشن جاری رکھنے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں اس طرح کے امکان کم نظر آتے ہیں کہ انڈیا چین کی سرحد پر اطمینان سے بیٹھ سکے گا۔ کیونکہ انڈیا ابھی تک چین کو صحیح معنوں میں مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔’پینگونگ سو جھیل کے کنارے حال میں چین کی جانب سے اضافی ہتھیار نصب کیے جانے کے پس منظر میں رتوشا کہتی ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیںانڈیا اور چین نے بات چیت میں ذرا سی بھی لغزش برتی تو کشیدگی اور بڑھنے کے امکانات ہیں۔ ساتھ ہی امریکہ میں کس کی حکومت ہے اس کا بھی عالمی سیاست پر اثر پڑتا ہے۔ امریکہ میں ڈیموکریٹ کے اقتدار میں آنے کے بعد صدر ٹرمپ کی جو چائنا پالیسی تھی وہ شاید جاری نہ رہے، اس کا بھی اس خطے پر اثر پڑے گا۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ چین سرحد پر فوجی نقل وحرکت کے لیے کئی مقامات پر ریلوے لائنیں بچھا رہا ہے۔ وہ شمال مشرقی سرحدوں کے نزدیک بھی کئی مقامات پر فوجی تعمیرات کر رہا ہے۔ ابھی حال میں ارونا چل پردیش سے خبر آئی تھی کہ چین نے انڈین خطے کے کئی کلومیٹر اندر ایک گاؤں تعمیر کر لیا ہے۔چین کی سرحد پر بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں کے درمیان انڈیا نے مصنوعی سیاروں اور خودکار ڈرون طیاروں کے ذریعے چین کی سرگرمیوں پر نظر رکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انڈین میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس مقصد کے لیے انڈیا اسرائیل اور امریکہ سے جدید ترین ڈرون حاصل کر رہا ہے۔