عدلیہ اصلاحات

2005 میں خالی کی گئی یہودی بستیوں کی آباد کاری کا کوئی ارادہ نہیں،اسرائیل

تل ابیب (عکس آن لائن)اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کے ملک کا شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں خالی کرائی گئی بستیوں کی تعمیر نو اور دوبارہ آباد کاری کا کوئی ارادہ نہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں سنہ 2005 کے چند یہودی بستیوں کو خالی کرانے سے متعلق ترمیمی بل پر رائے شماری کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی کنیسٹ میں ہونے والی رائے شماری پر واشنگٹن کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ آباد کاروں نے پارلیمنٹ کی جانب سے اس قانون کے ایک حصے کے خاتمے کا جشن منایا جو انہیں مغربی کنارے کے علاقوں میں رہنے سے روکتا ہے۔

یہ قانون 2005 کو خالی کرائی گئی بستیوں کو دوبارہ آباد کرانے کا موقع فراہم کرے گا۔ ان میں غزہ کی پٹی کی یہودی بستیوں کے علاوہ غرب اردن کے شمال میں واقع چار یہودی بستیاں بھی شامل ہیں۔اس سال منظور ہونے والے قانون نے اسرائیلیوں کو ان علاقوں میں رہنے سے روک دیا تھا، لیکن جو ترمیم پیر کی رات منظور کی گئی تھی وہ انہیں شمالی مغربی کنارے میں نابلس شہر کے قریب ان بستیوں میں واپس جانے کی اجازت دیتی ہے۔نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ پارلیمنٹ کے ووٹ نے “ایک امتیازی اور ذلت آمیز قانون کو منسوخ کر دیا جو یہودیوں کو شمالی سامریہ (شمالی مغربی کنارے کا بائبل کا نام) کے علاقوں میں رہنے سے منع کرتا ہے، جو ہمارے تاریخی وطن کا حصہ ہے۔

تاہم حکومت ان علاقوں میں نئی کمیونٹیز قائم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔بین الاقوامی قانون کے تحت آبادکاری کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے، لیکن اسرائیل کا خیال ہے کہ بغیر اجازت کے تعمیر ہونے والی بے ترتیب بستیوں اور قانونی بستیوں میں تقریبا 475,000 اسرائیلی رہتے ہیں۔ مغربی کنارا جہاں 2.9 ملین سے زیادہ فلسطینی رہتے ہیں، اسرائیلی فوجی حکمرانی کے تحت ہے۔بنجمن نیتن یاہو کی نئی اسرائیلی حکومت نے حلف اٹھایا ہے اور مغربی کنارے میں بستیوں کو وسعت دینے کا عہد کیا ہے۔ حکومتی بیان کے مطابق یہ آباد کاروں کو 2005 میں خالی ہونے والی چار جگہوں پر واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔حکومتی بیان اس وقت سامنے آیا جب واشنگٹن نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کنیسٹ میں اس پر ووٹ کو اشتعال انگیزقدم قرار دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں