لاہور( نمائندہ عکس) وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہم نے اپنا گردہ کاٹ کر پاکستان کی معیشت کو لگایا ہے،مشکل فیصلوں کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں دس نشستیں ہاریں لیکن وہ ہمیںوارے میں ہیں ہم نے معیشت کو نہیں ہارنے دیا، جب اگلے چھ آٹھ مہینے میں استحکام آئے گا جو سیاسی سرمایہ ہم نے کھویا تھا وہ بھی واپس آ جائے گا،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے گزشتہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں ترقیاتی بجٹ جاری نہیں ہو سکا ، کوئی بھی ملک ساڑھے نو فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا،جتنے بھی کامیاب ملک ہیں جنہوںنے ترقی کی ان کی ٹیکس ٹو جی ڈی اٹھارہ سے بیس فیصد ہے ،ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے لئے مجبوری ہوتی ہے اگر ٹیکس آمدن حاصل نہیں ہو رہی تو انہی لوگوں کو جکڑا جائے جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں آ گئے ہوتے ہیں، جو لوگ ٹیکس نہیں اادا کر رہے ہیں ان کی بجائے وہی شکنجے میں نچوڑے جاتے ہیں جو ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں ،بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے والوں کا بوجھ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے اٹھاتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیداران و دیگر بھی موجود تھے۔ چین ہم سے منافع نہیں لینا چاہتے بلکہ وہ ہمیں صنعتی ملک کے طور پر خود کفیل اور مضبوط دیکھنا چاہتا ہے ۔ چین کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہو گی کہ وہ پاکستان کی برآمدات بڑھانے میں کردار ادا کر سکے اور چین کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے لئے اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرے اور وہ اس کے لئے ہماری مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہے ۔انہوںنے کہا کہ چین اس وقت پوری دنیا سے سوا دو ہزار ارب ڈالر کی درآمدا ت کرتا ہے اور اس میں پاکستان کا حصہ صرف تین ارب ڈالر ہے ،
ہمیں یہ خوف تو رہتا ہے کہ چین کی مصنوعات ہماری مارکیٹ میں آکر شیئر لے جائیں گی لیکن ہم نے کبھی یہ توجہ نہیں دی کہ چین سوا دو ہزار ارب ڈالر کی درآمدات بھی تو کر رہا ہے اور وہاں حکومت ہماری مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہے ۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو عالمی منڈیوں میں امکانات پر نظر ڈالنا ہو گی اور اپنی پیداواری صلاحیت کو برآمدات کی مشین پر لگانا ہوگا ،کیونکہ ہمارے پاس سوائے برآمدات بڑھانے کے کوئی راست نہیںوگرنہ وہی ہوگا کہ چند سالوں بعد جب انجن چلے گا تو ہماری درآمدات نا قابل برداشت ہو جائیں گی اور ہمیں گاڑی کو بند کرنا پڑے گا کہ گاڑی ٹھنڈی ہو جائے ، ہمیں گزشتہ 75سالوں کی طرح زگ زیگ معیشت نہیں چلانی ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو بڑھانا ہوگا ، کوئی بھی ملک ساڑھے نو فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا،جتنے بھی کامیاب ملک ہیں جنہوںنے ترقی کی ان کی ٹیکس ٹو جی ڈی اٹھارہ سے بیس فیصد ہے ، ہمیںٹیکس آمدن کو دوگنا کرنا ہے تبھی وہ وسائل فراہم ہوں گے جس سے ملک کی ترقی کے لئے انفراسٹر اکچر پر کام ہو سکے گا ۔اس وقت جو بیلنس شیٹ ہمارے ملک کی ہے اگر وہ کاروبار کرنے والے لوگوں کی ہو تو ان کو رات کو نیند نہیں آئے گی ۔ اس سال بجٹ میں ٹیکس آمدن کا ہدف ہے سات ہزار ارب روپے ہے ، اس میں سے صوبوں کا تین ہزار ارب کا حصہ نکال دیں ، دو ہزار ارب نان ٹیکس ریو نیوہے ویسے اس کو شمار نہیں کرنا چاہے کیونکہ اصل ریو نیو حکومت کا وہی ہے جو ایف بی آر سے آتا ہے ، نان ٹیکس ریو نیو نا پائیدار شاخ ہے اور یہ کمائی نہیں ہے ۔ چار ہزار ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا ، اس کے بعد وفاق کے پاس ایک ہزار روپے بچیں گے ، پندرہ سو ارب دفاع کا بجٹ ہے اب اگر آپ نے دفاع کا بجٹ دینا ہے تو وہ بھی پورے پیسے نہیں ہے، اس کے لئے پانچ سو ارب ادھار لینا ہے ،
اس کے بعد حکومت کے جاریہ اخراجات ہیں جو ساڑھے پانچ سو ارب روپے ہیں وہ بھی سارا ادھار پر ہے ، اس کے بعدپانچ سو تیس ارب روپے پنشن کا ہے جس میںچار سو ارب دفاع اور ایک سو تیس ارب سول پنشن ہے یہ بھی پوری کی پور ی دھار لے کر دینی ہے ، سات سو ارب روپے ترقیاتی بجٹ ہے وہ پورا کا پورا ادھار کے اوپر بن رہا ہے ، تقریباً سات سو ارب روپے کی سبسڈیز ہیں وہ بھی ادھار پر ہیں،گیارہ سو ارب روپے صوبوں اور اسٹیٹ انٹر پرائزز کے ہیںوہ بھی ادھار پر ، پانچ ہزار ارب روپے کا خسارہ پورا کرنے کے لئے ہم اور قرضہ لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنے ٹیکس ریو نیو کوپندرہ سے بیس ہزار ارب روپے پر نہیں لے جاتے پاکستان کے لئے وہ سپیس نہیں ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم تیز رفتاری سے ترقی کرنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پہلا چیلنجٹیکس کے اندر ایسی اصلاحات لائیں جس سے ٹیکس آمدن ہو،حکومت کے لئے مجبوری ہوتی ہے اگر ٹیکس آمدن حاصل نہیں ہو رہی تو انہی لوگوں کو جکڑا جائے جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں آ گئے ہوتے ہیں، جو لوگ ٹیکس نہیں ادا کر رہے ہیں ان کی بجائے وہی شکنجے میں نچوڑے جاتے ہیں جو ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں ، اس لئے ہمیں ٹیکس بیس کو توسیع دینی ہے ،جو ٹیکس کی ادائیگی کر رہے ہیں انہیں چاہیے کہ ٹیکس چوری کو ختم کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ ان پر بوجھ کم ہو سکے ۔
احسن اقبال نے کہا کہ دوسرابڑی ہمار اچیلنج ہے برآمدات کا ہے کہ اسے کس طرح تیزی سے بڑھانا ہے ،آج خطے سے باہر ہی نہیں بلکہ خطے کے ممالک برآمدات میں آگے نکل گئے ہیں،ہم نے کبھی اپنے اندر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش ہی نہیں کی جو دنیا میںدرکار ہے ،یہاںہیومن ریسورس کو نظر انداز کیا گیا ،کبھی وہ ورک فورس تیار نہیںکی گئی جو عالمی سطح کی مصنوعات تیار کر سکیں ۔یہاں پر ٹھنڈ پروگرام والا کلچر ہے ہم آگے بڑھنے کے لئے سوچ کو وسعت نہیں دیتے۔انہوںنے کہا کہ میں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو کہا ہے کہ گریجوایٹ کے لئے لازمی کریں کہ وہ نان کریڈٹ پوسٹ انٹر پرینیوشپ یا مارکیٹنگ کریں تاکہ ہمارے نوجوان نوکری تلاش کرنے والے نہیں بلکہ نوکریاں دینے والے بنیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں براہ است سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ویت نام پر میں تیس ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری ہے جبکہ پاکستان میںیہ سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے ، برما چار سے چھ ارب ڈالر سالانہ براہ راست سرمایہ کاری لے رہا ہے ، کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا میںبڑی آبادی والا چھٹا بڑا ملک ہیں، براہ راست سرمایہ کاری سے نئی ٹیکنالوجی اورنئے آئیڈیاز بھی آتے ہیں،جوائنٹ ونچر بھی شکل ہے ، ہمیں اس کے لئے کارپوریٹ گورننس بین الاقوامی معیار کے مطابق کرنا پڑے گی تاکہ ہم بین الاقوامی اشتراک کر سکیں ۔انہوںنے کہا کہ سرکلر ڈیٹ بھی بڑا چیلنج ہیں،توانائی کے شعبے میں اس کا حجم 1500ارب روپے تک پہنچ گیاہے اور یہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے ، یہاں کچھ ایسے علاقے ہیںجہاں لوگ بجلی کا بل دینا گناہ کبیرہ ہے ، جوعلاقے باقاعدگی سے دیتے ہیں وہ بجلی چوری کرنے والوں کی بھی ادائیگی کر رہے ہیں ۔ہم صوبوں کو کہہ رہے ہیں وہ اس حوالے سے ہمارے ساتھ مل کر کام کریں کیونکہ صوبوں کے پاس انفورسمنٹ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ محتاط تخمینے کے مطابق کئی سرکاری اداروں کا اربوں روپے حکومت پر بوجھ ہے ، ہم ایسے اداروں کو نجکاری کے ذریعے حکومت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ یہ ادارے اپنی استعداد بڑھائیں۔انہوں نے کہا کہ اس حکومت کا مینڈیٹ بڑا مختصر ہے اور ہم یہ نہیں کر سکتے کہ کوئی طویل المدت ایجنڈا لے کر چل سکیں ۔ہماری ترجیح معیشت کو استحکام دینا تھا جس میں ہم کامیاب رہے ہیں۔ آج سے تین ماہ پہلے یہ حالت تھی کہ وزارت خزانہ آخری سہ ماہی کا ترقیاتی بجٹ جاری نہیں کر سکی اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو اہے کہ ڈویلپمنٹ بجٹ کے لئے ایک روپیہ جاری نہ کیا گیا ہو ۔ جو دعویٰ کر رہے ہیں ہم بڑی معیشت چھوڑ گئے اگر ایسا ہے تو پھر ہماری حکومت آنے سے دس دن پہلے وزارت خزانہ نے ہاتھ کیوں کھڑے کئے کہ آخری سہ ماہی کے لئے ترقیاتی بجٹ کی قسط جاری نہیں کر سکتے ،اس کا مطلب آپ خزانہ خالی چھوڑ کر گئے تھے۔ ہمارے آنے سے پہلے شرطیں لگ رہی تھیں کہ پاکستان روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں تین سو روپے تک جائے گا، پاکستان کو سری لنکا کے انجام تک پہنچنے میں دو ہفتے لگتے ہیں یا چار ہفتے لتے ہیں۔
لیکن آج الحمد اللہ دنیا کے کسی میڈیا میں یا کسی اور مرکز میں اس طرح کی کوئی شرط نہیں لگا رہا کہ پاکستان سری لنکا بننے جارہا ہے ،آج پاکستان مستحکم ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ہم نے بہت بڑی کامیابی دکھائی ہے ، پاکستان کو کھائی سے بچالیاجس میںگرنے کے لئے پاکستان بالکل تیار تھا، اب ہم استحکام کی طرف جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دو راستے تھے ، ہم نے جس راستے کو چنا یہ آسان نہیں تھا یا ہم سیاست بچائیں یا ریاست بچائیں ، ہم نے اپنا گردہ کاٹ کر پاکستان کی معیشت کو لگایا ہے،ہم نے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں دس نشستیں ہاریں لیکن وہ ہمیںوارے میں ہیں ہم نے معیشت کو نہیں ہارنے دیا ۔ جب اگلے چھ آٹھ مہینے میںاستحکام آئے گا جو سیاسی سرمایہ ہم نے کھویا تھا وہ بھی واپس آ جائے گا۔
عمران خان رچیم چینج کی بات کرتے ہیں لیکن 2018ء میں عمران خان کو جو مسلط کیا گیا وہ رجیم چینج تھا ، اس نے سی پیک اور پاکستان کو تباہ کر دیا۔ ۔انہوں نے کہا کہ جب حکومت چھوڑ کر گئے تو ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب تھا مگر اب ترقیاتی بجٹ ساڑھے پانچ سو ارب روپے رہ گیا ہے۔ قومی معیشت کو مستحکم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ نجی شعبہ کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کا اناڑی پن پاکستان کو بہت مہنگا پڑا۔سیاسی استحکام اور اقتصادی پالیسیوں کے تسلسل سے ہی ملک کی ترقی و خوشحالی ممکن ہے،پالیسیوں کا تسلسل رہے گا تو پاکستان ترقی کرسکتا ہے،ترقی کیلئے ضروری ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو ہر قسم کی زنجیر سے آزاد کیا جائے۔