اسلام آباد (نمائندہ عکس)اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف ڈسٹرکٹ ایڈیشنل خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق دئیے گئے بیان پر توہین عدالت کا نوٹس ڈسچارج کر تے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کا بیان حلفی دیکھا ہے، عمران خان کے کنڈکٹ سے مطمئن ہیں، عمران خان نے نیک نیتی ثابت کی اور معافی مانگنے کیلئے جج کے پاس گئے۔ پیر کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے بیان حلفی جمع کرا دیا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ہم نے آپ کا بیان حلفی پڑھا ہے، کچھ اور کہنا چاہتے ہیں؟ بادی النظر میں یہ توہین عدالت تھی تاہم عمران خان کے رویے پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کیسسز میں ہم بہت احتیاط کرتے ہیں، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان کا ڈسٹرکٹ کورٹس جانا اور یہاں پر معافی مانگنا بہتر ہے۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت شوکاز نوٹس خارج کرنے کی مخالفت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز کے فیصلے موجود ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیس کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں؟۔یادرہے کہ یکم اکتوبر کو سابق وزیراعظم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیانِ حلفی جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی تھی البتہ انہوںن کہا تھا کہ میں بطور چیئرمین تحریک انصاف گزشتہ 26 سال سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کے احترام اور آزادی کے جدوجہد کررہا ہوں اور دیگر سیاسی رہنمائوں کے برعکس میں نے ہمیشہ ہر عوامی اجتماع میں قانون کی حکمرانی کی بات کی۔اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے مختصر سماعت میں عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس خارج کر دیا۔
واضح رہے کہ 20اگست کو ایک ریلی کے دوران خاتون جج کو دھمکی دینے پر گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی۔22ستمبر کی سماعت میں عمران خان نے جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جس پر عدالت نے ہدایت کی تھی کہ عمران خان معافی سے متعلق ایک ہفتے کے اندر بیان حلفی جمع کرا دیں، خاتون جج کے پاس جانا یا نہ جانا ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا۔ عدالت نے ان کے خلاف فرد جرم کی کارروائی بھی موخر کردی تھی۔گزشتہ ہفتے 30 ستمبر کو عمران خان اپنے بیان پر معافی مانگنے کیلئے خاتون ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کی عدالت بھی پہنچے تھے تاہم ان کی جج سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔یکم اکتوبر کو اپنے بیان حلفی میں انہوںنے کہا تھا کہ عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے 20 اگست 2022 کو عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کردی۔انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کبھی ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جزز کو دھمکی دینا نہیں تھا نہ ہی اس بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے سوا ئے کوئی ارادہ تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جج کے سامنے یہ وضاحت کرنے کو تیار ہوں کہ نہ میں نے اور نہ میری پارٹی نے معزز جج کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست کی اور اگر جج کو یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر میں نے لائن کراس کردی تھی تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔بیان حلفی میں عمران خان نے کہا تھا کہ میں عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جو کسی بھی عدالت بالخصوص ماتحت عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچائے۔انہوں نے کہا کہ میں مستقبل میں ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار ہوں جو عدالت اس بات کے اطمینان کے لیے ضروری اور مناسب سمجھے کہ میرا ارادہ عدالتی کارروائی یا عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کا نہیں تھا۔انہوں نے یقین دلایا کہ 22 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں جو کچھ عدالت کے سامنے کہا اس پر عمل کروں گا۔
خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلی ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں۔اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔