کراچی (عکس آن لائن)ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں کپاس کی قلت سب سے بڑے صنعتی و برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کے لئے خطرہ بن چکی ہے اس لئے اسکی بلا تاخیر درآمد شروع کی جائے۔پاکستان کے لئے بھارت کپاس کے حصول کا سب سے سستا زریعہ ہے جسے سیاسی کشیدگی کی وجہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے اس لئے افغانستان اور وسط ایشیاء سے طورخم کے راستے کپاس درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کپاس کی درآمد میں تاخیر سے پاکستان کا اپنا نقصان ہو رہا ہے اس لئے ملک میں موجود سیاسی حالات کے باوجود اس معاملہ کو اہمیت دی جائے۔انھوں نے کہا کہ طورخم کے راستے اگلے پندرہ ماہ تک کپاس درآمد کرنے کی اجازت ملکی مفاد کے عین مطابق ہے کیونکہ کپاس کی ملکی پیداوار مستقل بنیادوں پر کم ہو رہی ہے جسکی وجوہات میںمتعلقہ محکموں کی عدم توجہ ،کاشتکاروں کا دوسری فصلوں کی جانب مائل ہونے کا خطرناک رجحان، بڑھتے ہوئے اخراجات اور دیگر عوامل شامل ہیں۔
ٹیکسٹائل سیکٹر کو سالانہ کم از کم ایک کروڑ بیس لاکھ گانٹھ درکار ہوتی ہے جبکہ پیداوار پندرہ سال سے گر رہی ہے جس میں گزشتہ تین سال سے زبردست کمی آئی ہے مگر طلب اور رسد کو ابھی تک متوازن نہیں کیا جا سکا ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذیدکہا کہ کپاس کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچہ آئے گا جس سے ٹیکسٹائل برآمدات سے حاصل ہونے والے فوائد میں خاطر خواہ کمی آئے گی ۔ٹیکسٹائل سیکٹر کی کئی ایسو سی ایشنز نے بھارت سے چار سے چھ ماہ کے لئے کپاس کی درآمد کا مطالبہ کیا ہے جس پر غور کیا جائے کیونکہ یہ ملکی مفاد کا معاملہ ہے۔ یہ مطالبہ فوری طو رپر مان لیاجائے تو ٹیکسٹائل کے شعبہ کے لئے آرڈرز کی بروقت تکمیل ممکن ہو جائے گی اور ملک میں کپاس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں جن میں گزشتہ دو ماہ میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے بھی معتدل ہو جائیں گی جبکہ زخیرہ اندوز اپنی چھپائی ہوئی کپاس کو مارکیٹ میں لے آئیں گے۔ٹیکسٹائل سب سے زیادہ صنعتی روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے جو برآمدات میں بھی سب سے آگے ہے اس لئے اسکے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔