جنیوا (عکس آن لائن)عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کی ویکسین 2021 تک تیار نہیں ہوسکتی۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ وضاحت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حال ہی میں امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے بائیو ٹیک کمپنی موڈرینا کو تیار کردہ ویکسین کی آزمائش کے دوسرے مرحلے کی اجازت دی ہے۔
ایف ڈی اے نے چند دن قبل ہی موڈرینا کو اپنی تیار کردہ ویکسین کے دوسرے آزمائشی مرحلے شروع کرنے کی اجازت دی تھی، موڈرینا وہ پہلی کمپنی تھی جس نے مارچ میں انسانوں پر اپنی ویکسین کی آزمائش شروع کی تھی۔مذکورہ کمپنی نے ویکسین کے انسانی ٹرائل کے پہلے مرحلے کو حال ہی میں مکمل کیا تھا جس کا مقصد اس ویکسین کے محفوظ ہونے اور مقدار کے بارے میں سمجھنا تھا اور اب دوسرے مرحلے میں محققین اس کی افادیت اور مضر اثرات کو 600 افراد پر دیکھیں گے۔امریکا کی اسی کمپنی کے علاوہ ایک اور امریکی کمپنی کا بھی انسانی ٹرائل جاری ہے جبکہ برطانیہ اور جرمنی کی کمپنیوں کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کا انسانی ٹرائل بھی جاری ہے، تاہم باقی تینوں کمپنیوں کے یہ ابتدائی ٹرائل ہیں اور ان تمام ویکسین کے ٹرائلز مجموعی طور پر تین آزمائشی مراحل پر مشتمل ہوں گے۔
امریکی کمپنی موڈریکا کی ویکسین ایم آر این اے 1273 کا دوسرا آزمائشی مرحلہ شروع ہوتے ہی عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، دنیا میں کوئی بھی کورونا سے بچاؤ کی ویکسین 2021 کے آخر تک سامنے نہیں آ سکتی۔عرب نشریاتی ادارے العربیہ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ترجمان کے مطابق نئی ویکسین کی آزمائش کے تین مرحلے ہوتے ہیں، جس کے بعد مزید دو اور مرحلے بھی ہوتے ہیں اور ان تمام مراحل کو مکمل کرنے میں ڈیڑھ سال کا وقت لگ جائے گا اور یوں کوئی بھی ویکسین 2021 کے اختتام سے قبل دستیاب نہیں ہوگی۔عالمی ادارہ صحت کے عالمی وبا کے الرٹ اور ریسپانس سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر ڈیل فشر نے امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی آزمائش کا دوسرا اور تیسرا مرحلہ پہلے مرحلے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے اور اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ڈاکٹر ڈیل فشر کے مطابق پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے میں بہت سارے لوگوں پر ویکسین کو آزمایا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس دوران رضاکاروں کی صحت اور ویکسین کے نتائج کو بھی مانیٹر کیا جاتا ہے جو کہ ایک تھکا دینے والا مرحلہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے عہدیدار کے مطابق پہلے اور دوسرے مرحلے کی کامیابی کے بعد ویکسین کی آزمائش کا تیسرا اور سب سے اور بڑا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور تیسرے مرحلے میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں پر ویکسین کو آزمایا جاتا ہے۔ان کے مطابق لاکھوں لوگوں کو ویکسین دینے، ان کی صحت مانیٹر کرنے اور دوا کے رد عمل جانچنے میں نہ صرف بہت بڑی ٹیم اور فنڈز کی ضررت ہوتی ہے بلکہ اس میں کافی وقت بھی لگتا ہے۔ڈاکٹر ڈیل فشر نے بتایا کہ اگر تینوں آزمائشی پروگرام کامیاب بھی گئے اور ویکسین کے نتائج بھی بہتر ثابت ہوئے تو ویکسین کا چوتھا مرحلے اس کی تیاری کا ہے جو کہ خود ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس کے بعد آخری مرحلہ اس ویکسین کی تقسیم اور دور دراز علاقوں تک ترسیل کا ہے اور ان سب مراحل کو طے کرنے میں ڈیڑھ سال کا وقت لگ سکتا ہے۔
انہوں نے واضح طور پر ویکسین کی دستیابی کے حوالے سے کسی مہینے یا تاریخ کا ذکر نہیں کیا، تاہم بتایا کہ اگر تمام مراحل توقعات کے مطابق طے کیے گئے تو بھی ویکسین کی فراہمی 2021 کے آخر سے قبل ناممکن ہوگی تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی ویکسین کے تجربے اور تحقیق کے لیے بہت سارے وسائل فراہم کرکے ٹیم ورک کے طور پر کام کیا جائے تو ایک سال کے اندر ویکسین کی دستیابی ممکن ہو سکے گی یعنی پھر بھی دنیا کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین 2021 کے وسط تک ہی مل پائے گی۔