اسلام آباد(عکس آن لائن)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کابل تک کا سفر طے کر لیا ، پاکستان کی موجودگی میں 29 فروری کو امریکہ طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوں گے، پاکستان کے بغیر ان معاملات کا آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا،پاکستان نے خلوص اور نیک نیتی سے افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کیا ، اب افغانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے،افغان قیادت کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے، افغانستان کے مسئلے کا پر امن حل آسان تھا اور نہ ہے ،آج امریکہ سمیت پوری دنیا ہمارے کردار کو سراہا ارہی ہے۔
ہفتہ کو افغان امن عمل کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سب سے پہلے تو ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے ممکن نہیں، جامع مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے آمادہ کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے علم میں ہے کہ افغان 19 برس تک آپس میں لڑتے رہے۔جب افغانستان میں ایک ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ کی طرف سے ٹویٹ آیا کہ انہوں نے افغان امن مذاکرات معطل کر دیے ہیں تو ہماری کوشش تھی کہ مذاکرات جلد دوبارہ بحال ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دو مغویوں کو چھڑانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
دوحہ مذاکرات کا آغاز آسان نہیں تھا لیکن خوشی کی بات ہے کہ آج دونوں فریق کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تفصیلات طے کر لی ہیں اور ہم ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ فریقین تشدد میں کمی اور 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کیلئے بھی متفق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج امریکہ سمیت پوری دنیا ہمارے کردار کو سراہا رہی ہے چند روز قبل افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اسلام آباد آئے ۔ وزیراعظم عمران خان اور میرے ساتھ انکی تفصیلی ملاقات ہوئی اور یہ سارے معاملات جو اب منظر عام پر آ رہے ہیں ان پر ہماری تفصیلی مشاورت بھی ہوئی اور ہم نے ایک روڈ میپ طے کیا۔
میں نے لمے خلیل زاد کو کہا کہ ایسے عناصر موجود ہیں جو اس ساری صورتحال کو خراب کرنے کے درپے ہیں ہمیں ان عناصر سے باخبر رہنا ہو گا کیونکہ ایک طبقہ ہے جو جنگ کی کیفیت سے مستفید ہو رہا ہے امریکہ اور اس کے حلیفوں کو ان عناصر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی دیانتداری اور کوششیں رنگ لے آئی ہیں کہ آج بات یہاں تک پہنچی ہے امید ہے کہ اس حوالے سے مزید پیش رفت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ جب امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان تشریف لائے اور میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی اس وقت پاک امریکہ تعلقات میں تناو تھا تو میں نے ان سے پاک امریکہ تعلقات کو از سر نو استوار کرنے کے حوالے سے بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بہتری کا یہ راستہ کابل سے مشروط ہے، آج میں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے ہم نے کابل تک کا سفر طے کر لیا ہے ہم نہ صرف ایک مستند وفد کو سامنے لے کر آئے بلکہ اس وفد نے مذاکرات کو منطقی انجام تک بھی پہنچایا ہے۔ اب افغان کی قیادت کی ذمہ داری ہے جنہوں نے اس جنگ کی بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کی ہے، اس قیادت کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ میرا تجزیہ ہے کہ افغانستان کے عوام تو امن چاہتے ہیں اب یہ خواص پر منحصر ہے کہ وہ امن کی کاوشوں کو آگے بڑھاتے ہیں یا اسے سیاسی رسہ کشی کی نظر کرتے ہیں اس کی تمام ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے پاکستان پر نہیں۔
پاکستان کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط ہوں گے کیونکہ پاکستان کے بغیر ان معاملات کا آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ 29 فروری کے بعد کوشش ہے کہ ایک جامع وفد تشکیل پائے تاکہ انٹرا افغان مذاکرات کی طرف بڑھا جا سکے۔ یہ مذاکرات کب اور کیسے ہوں گے اس حوالے سے بھی طے کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے خلوص اور نیک نیتی سے افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کیا ہے اب افغانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔