بیجنگ (عکس آن لائن) رواں سال کے آغاز سے غیر ملکیوں کی چین آمد میں سہولت فراہم کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے پالیسیوں اور اقدامات کا سلسلہ متعارف کرایا گیا ہے، خاص طور پر 144 گھنٹے کی ٹرانزٹ ویزا فری پالیسی، جس سے غیر ملکیوں کی چین آمد کا رجحان ایک عروج پر پہنچ گیا ہے ۔چائنا نیشنل امیگریشن ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی میں 14.635 ملین غیر ملکی چین میں داخل ہوئے جو سال بہ سال 152.7 فیصد اضافہ ہے۔
ان میں سے 8.542 ملین افراد نے ویزا فری انٹری سے استفادہ کیا ، جو سال بہ سال 190.1 فیصد کا اضافہ ہے۔ توقع ہے کہ رواں سال کی دوسری ششماہی میں چین آنے والے غیر ملکیوں کی تعدا د میں اضافہ جاری رہے گا۔ چین کا دورہ کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں اضافے کے اہم اسباب میں بیرونی سیاحت کی طلب ، چین کی سازگار ویزا فری پالیسی ، اور داخلے کی مسلسل بہتر سہولیات شامل ہیں ۔ چین نے ہمیشہ دنیا بھر سے آنے والے افراد کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں۔
رواں سال کے آغاز سے ہی چین کے ویزا فری “دوستوں کے حلقے” کی مسلسل توسیع کے ساتھ ساتھ 72/144 گھنٹے کی ٹرانزٹ ویزا فری پالیسی سے غیر ملکیوں کے لیے چین آنا بہت آسان ہو گیا ہے جس کی وجہ سے چین کی ان باؤنڈ سیاحت کی مقبولیت میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سوشل میڈیا پر “چائنا ٹریول” کے موضوع کے تحت متعلقہ ویڈیوز کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ انٹرنیٹ بلاگرز اپنے ویڈیوز میں چین میں سفر کے تجربے شیئر کرتے ہیں ، چین کے منظر نامے ، لوگوں کے دوستانہ رویے ، ضروریات زندگی کی سہولیات ، منفرد کھانے اور رنگا رنگ ثقافت کو مختلف نقطہ نظر سے پیش کرتے ہیں ، جس سے زیادہ سے زیادہ غیر ملکیوں میں چین کے دورے کی خواہش مزید بڑھی ہے ۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے جیمز اور ان کے اہل خانہ نے بیجنگ آ کر تھیان آن من اسکوائر،فاربیڈن سٹی، دیوار چین اور سمر پیلس کا دورہ کیا اور کہا کہ وہ اس تجربے کو نہ صرف اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ بانٹیں گے بلکہ دوبارہ چین کا دورہ بھی کریں گے۔ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے گریگ نے شی آن کے شاندار مناظر اور گہرے قدیم ثقافتی ورثے کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سفر کا تجربہ توقعات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ویزا فری سہولت کی وجہ سے ، اکثر غیر ملکی سیاح چین میں بہت اچھا وقت گزارتے ہیں اور اُن کا چین سے روانگی کا جی نہیں چاہتا ۔ ایک روسی سیاح نے چھ ماہ میں بیجنگ، تھیان جن، شنگھائی، ہانگ چو، ری چاؤ اور نینگ بوو سمیت 16 شہروں کا دورہ کیا جبکہ ترکی کے ایک سیاح نے گوانگ چو، شینزین، جوہائی، جی نان اور چھینگ ڈاؤ سمیت 12 شہروں کا دورہ کیا۔ ایسے سیاحوں کی بھی ایک کثیر تعداد ہے ۔ آجکل بہت سے چینی شہریوں کو یہ احساس ہےکہ اس موسم گرما میں، غیر ملکیوں کو خوبصورت مقامات، سڑکوں اور گلیوں ، رات کے بازاروں اور دیگر مقامات پر جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے.
غیر ملکی دوستوں کو چین میں ایک بہتر سفر کا تجربہ فراہم کرنے کے لئے، آسان ادائیگی بلاشبہ ایک اہم حصہ ہے. اس مقصد کی تکمیل کے لیے متعلقہ اداروں نے موبائل ادائیگی کے دو طریقوں کو فعال طور پر فروغ دیا ہے، “فارن کارڈ انٹرنل بائنڈنگ” (علی پے ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد بین الاقوامی بینک کارڈ کو منسلک کرنا) اور “فارن ای والٹ انٹرنل یوز” (براہ راست علی پے کیو آر کوڈ اسکین کرنے کے لئے فارن ای والٹ کا استعمال کرتے ہوئے)، کے استعمال سے غیر ملکیوں کے لیے چین میں ادائیگی کا مسئلہ بالکل ختم ہو گیا ہے ۔ چین میں کیو آر کوڈز کا استعمال بہت مقبول رہا ہے لیکن غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے یہ اب بھی ایک نئی بات ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر اب بھی نقد یا کارڈ ادائیگی کے استعمال کے عادی ہیں، جیسا کہ بہت سے غیر ملکی سیاحوں کا کہنا ہے کہ چین کی موبائل ادائیگی اُن کے لیے ایک بہت ہی انوکھا تجربہ لے کر آئی ہے، جبکہ چین کے خوبصورت مناظر، کھانے پینے اور چینی ثقافت سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ موبائل ادائیگی کی سہولت بھی انہیں چین کی ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کا گہرا احساس دلاتی ہے۔ایک موبائل فون کے ساتھ چین بھر میں سفر کرنا ایک ایسا موضوع بن گیا ہے جس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔
اس وقت 144 گھنٹے ٹرانزٹ ویزا فری پالیسی کا اطلاق چین کے 18 صوبائی یونٹوں کی 38 بندرگاہوں پر ہوتا ہے جو غیر ملکیوں کو چین کے بارے میں جاننے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ غیر ملکی بلند توقعات کے ساتھ چین آ رہے ہیں ، اورسفر چین سے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کر رہی ہیں ۔ اس وقت چین میں رہائش کی بہتر خدمات ، جدید بنیادی ڈھانچے اور خوشحال ثقافتی ورثے کو زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی آنکھوں اور ڈیجیٹل عکس کے ذریعے دیکھ رہے ہیں۔ ویزا فری “حلقہ احباب” کی توسیع نے غیر ملکیوں میں چین کے سفر کا جوش پیدا کیا ہے ، اور 144 گھنٹے کی ٹرانزٹ ویزا فری پالیسی سے “چین آنے” کی خواہش ایک حقیقت میں بدل چکی ہے۔