بیجنگ (عکس آن لائن) چین کے صوبہ ہونان کی چھانگ شا کاؤنٹی کے چھن ہوا ٹاؤن ہیلتھ سینٹر کے ڈاکٹر سون یونگ اور ان کے ساتھی ہر صبح آس پاس کے دیہات میں جاتے ہیں جہاں وہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی بنیادی بیماریوں کے شکار افراد کامعائنہ کرتے ہیں ،ان میں تشہیری مواد تقسیم کرتے ہیں اور انہیں کووڈ کی وبا سے محفوظ رہنے کے طریقے بتاتے ہیں ۔ اس وقت چھانگ شا کاؤنٹی کے ہر گاؤں میں 1 جنرل پریکٹیشنر، 1 ویلیج ڈاکٹر، 1 پبلک ہیلتھ ڈاکٹر اور 1 نرس پر مشتمل ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کووڈ مریضوں کی تشخیص کرتی ہے ، شدید بیمار مریضوں کو بروقت گرین چینلز کے ذریعے متعلقہ ہسپتالوں تک منتقل کرتی ہے تاکہ تمام مریض بروقت طبی علاج پا سکیں ۔منگل کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق چین کے مختلف علاقوں میں کووڈ کی وبا اب بھی پھیل رہی ہے۔ چینی حکومت نے مریضوں کے علاج کے لئے سخت اور مؤثر انسدادی اقدامات اپنائے ہیں، اور ایک ہی وقت میں فعال طور پر حالات کے مطابق انسدادی پالیسیوں اور اقدامات کو بہتر کیا ہے تاکہ انسداد وبا اور اقتصادی و سماجی ترقی کو مربوط کرنے میں بہترین نتائج حاصل کئے جا سکیں۔
کچھ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں چینی حکومت نے انسدادی اقدامات میں نرمی کی تھی ۔ دوسری جانب، حالیہ عرصے میں چین میں کووڈ انفیکشن اور سنگین کیسز میں اضافے نے کچھ لوگوں کو اس تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ وبا کی وجہ سے بزرگوں سمیت بڑی تعداد میں کمزور افراد ہلاک ہوجائیں گے ، اور سوال اٹھایا کہ چین کی انسدادی پالیسیوں کی ایڈجسٹمنٹ بہت جلد بازی میں کی گئی ہے۔
تاہم ،حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ گزشتہ ایک مہینے میں ، چینی حکومت نے انسدادی پالیسی میں لگاتار تین مرتبہ ایڈجسٹمنٹ کیں ہیں ، جو چین میں وبائی خصوصیات پر مبنی ہے ،اور متعلقہ فیصلے وبائی صورتحال کے سنجیدہ مطالعے ، موجودہ انسدادی اقدامات کی تاثیر کے جائزے ، مفید تجربے اور مختلف مقامات پر موجود مسائل کے تجزیہ اور دیگر عوامل کے پیش نظر کیے گئے ہیں ۔
وبائی کنٹرول میں نرمی سے آنے والے دنوں میں بھی انفیکشنز اور مرض کے پھیلاو میں اضافہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے چینی حکومت نے گزشتہ تین سالوں میں کافی تیاریاں کی ہیں۔ مثال کے طور پر2019 کے اختتام تک چین میں آئی سی یو یعنی انتہائی نگہداشت یونٹ میں بستروں کی تعداد 57160 تھی لیکن اب یہ تعداد 138100 تک پہنچ چکی ہے ، یعنی تین سال سے بھی کم عرصے میں آئی سی یو بستروں کی کل تعداد میں 2.4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں ، ملک بھر میں آئی سی یو ڈاکٹروں کی تعداد 60000 کے لگ بھگ تھی ،جبکہ آئی سی یو نرسوں کی تعداد 100000 تھی۔ 2022 تک آئی سی یو ڈاکٹروں کی تعداد 80500 ، “کنورٹیبل آئی سی یو ڈاکٹرز” 106000 تک جا پہنچی ہے اور آئی سی یو نرسوں کی تعداد 220000 ہو گئی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں، گزشتہ تین سالوں میں، چین کے آئی سی یو ڈاکٹروں میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے، نرسوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، اور ایک بڑی “کنورٹیبل” ریزرو میڈیکل ٹیم کسی بھی وقت تیار ہے۔
اسی طرح نسبتا کمزور طبی وسائل کے ساتھ دیہی علاقوں کے لئے، چینی حکومت نے ملک میں ایک گرڈ شہری و دیہی طبی نیٹ ورک قائم کیا ہے جس کے تحت تمام بزرگ افراد کا مکمل طور پر احاطہ کیا جا سکتا ہے اور بزرگوں کے لئے درجہ بندی کی صحت کی نگرانی کی جا سکتی ہے. اس کے علاوہ چینی حکومت نے مقامی طبی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ آن لائن تشخیص اور علاج کے ذریعے اپنی استعداد کار میں تیزی سے اضافہ کریں، وبائی امراض کی روک تھام کے لیے فوری طور پر درکار ادویات اور آلات جیسے طبی وسائل کی پیداوار، نقل و حمل اور استعمال کے لیے مجموعی انتظامات کریں اور اہم طبی مواد کی پیداوار اور مارکیٹ میں فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
عالمی برادری، ماہرین اور اسکالرز نے بھی چین کی جانب سے انسدادی پالیسیوں کی ایڈجسٹمنٹ پر مثبت تبصرے کیے ہیں اور مفید تجاویز دی ہیں۔ امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں گلوبل ہیلتھ پالیسی اینڈ اکنامکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر چن شی نے کہا کہ انسدادی پالیسیوں کی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ، مختصر مدت میں چین کو درپیش بنیادی مسئلہ ،وبا سے متعلق صحت عامہ کے شعبے میں ہے ، “صحت عامہ کے مسائل جتنی آسانی سے حل ہوں گے ، چین کی معیشت کی بحالی اور مستقل نمو کے لئے ماحول اتنا ہی سازگار ہوگا۔انہوں نےمزید کہا کہ چین اور دیگر ممالک کے درمیان معیشت اور تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور ثقافت جیسے مختلف شعبوں میں تبادلے بحال ہونے کے بعد ، وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے ایک طویل مدتی بین الممالک تعاون کا طریقہ کار طے کیا جاسکتا ہے۔
پیرو کے سابق وزیر صحت اور معروف طبی ماہر جان موٹا کا ماننا ہے کہ چین کےانسدادی اقدامات نے عمدہ کارکردگی اور اعلی انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وبائی امراض کے حوالے سے الرٹ، کنٹرول، تشخیص اور علاج کے حوالے سے سائنسی تحقیق، اعداد و شمار، ویکسی نیشن اور طبی عملے کی کاوشوں، مضبوط نظم و ضبط ، منصوبہ بندی اور عوام کی فہم و فراست اور وسیع تر شرکت ،حکومت اور عوام کے درمیان تعاون کی ایک بے مثال نظیر ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ ‘اس وبا نے دنیا کو یہ احساس بھی دلا دیا ہے کہ چین ایک عظیم اور نظم و ضبط والا ملک ہے۔