بیجنگ (عکس آن لائن) ستر سال قبل، جب مختلف ممالک کے تعلقات کو سنبھالنے اور عالمی امن و ترقی کو فروغ دینے میں بڑے مسائل درپیش آئے تو ، چینی رہنماؤں نے پہلی بار “خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا باہمی احترام، باہمی عدم جارحیت، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، مساوات اور باہمی فائدے اور پرامن بقائے باہمی” کے پانچ اصول پیش کیے۔
آج، 70 سال بعد، پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں نے ایک بار پھر اپنی نظریاتی اہمیت اور عملی قدر کا مظاہرہ کیا ہے ۔چینی میڈ یا کے مطا بق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 70 سالوں میں، پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کو دنیا کے تمام ممالک نے وسیع پیمانے پر قبول اور تسلیم کیا ہے اور یہ جدید بین الاقوامی تعلقات کو چلانے والے اہم اصول بن گئے ہیں.
28 جون کو منعقدہ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کی 70 ویں سالگرہ کے اجلاس سے صدر شی جن پھنگ نے اپنے اہم خطاب میں کہا کہ “پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصول” اور “بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل ” بالترتیب 70 سال قبل چین کی جانب سے فراہم کردہ “تاریخی جوابات” اور 70 سال بعد چین کی طرف سے دیئے گئے “وقت کے جوابات” ہیں۔ دونوں کا مقصد یکساں ہے۔
موجودہ پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں چین نے عالمی امن اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے چین کے حل کو سامنے رکھا ہے۔ آج، انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل ایک بین الاقوامی اتفاق رائے بن گیا ہے، جو امن، سلامتی، خوشحالی اور ترقی کی حامل دنیا کو روشن مستقبل کی جانب لے جا رہا ہے.
پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں سے لے کر بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر تک، چین ہر اقدام میں فعال طور پر حصہ لیتا ہے اور راہیں اور عملی اقدامات فراہم کرتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے تمام شریک ممالک نے باہمی فائدے اور جیت جیت نتائج حاصل کئے ہیں ۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری، انڈونیشیا کے جکارتہ بانڈونگ ہائی اسپیڈ ریلوے اور چین وسطی ایشیا قدرتی گیس پائپ لائن جیسے تعاون کے بہت سے منصوبوں نے قابل ذکر نتائج حاصل کیے ہیں۔
گلوبل ساؤتھ کے رکن کی حیثیت سے ، چین نے فعال طور پر گلوبل ساؤتھ کے ممالک کی مشترکہ ترقی کے فروغ کے لیے بھر پور کوشش کی ہے ۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے گلوبل ساؤتھ کے لیے آٹھ اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا جن میں ٹیلنٹ ٹریننگ، نوجوانوں کے تبادلے، معاشی ترقی، آزاد تجارت، زرعی تعاون، ڈیجیٹل اکانومی، گرین ایکولوجی اور دیگر شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
چین عالمی حکمرانی کے عمل میں تیزی سے حصہ لے رہا ہے اور چینی حل اور دانشمندی پیش کرنا جاری رکھے ہوئے ہے ۔ “گلوبل ساؤتھ” ریسرچ سینٹر کے قیام سے لے کر “گلوبل ساؤتھ” نوجوان چیمپیئنز پروگرام تک ، “گلوبل ساؤتھ” کی زرعی ترقی کی حمایت سے لے کر “گلوبل ساؤتھ” میں مزید ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی انتظامات پر بات چیت کرنے تک ، چین نے جنوب۔
جنوب تعاون کے میکانزم میں بہتری کو فروغ دیا ہے۔ صدر شی جن پھنگ کی طرف سے اعلان کردہ اقدامات کا سلسلہ “گلوبل ساؤتھ” کی ترقی اور بحالی کے پختہ عزم کو فروغ دے گا اور جنوب کے ممالک کی مشترکہ ترقی کو فروغ دے گا۔
2023 میں برکس کی رکنیت میں تاریخی توسیع حاصل کی گئی ہے ۔ چین نے افریقی یونین کی جی 20 میں شمولیت کی سب سے پہلے حمایت کی ہے اور “گلوبل ساؤتھ” کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی اداروں میں جنوبی ممالک کی نمائندگی اور آواز کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ منصفانہ اور زیادہ شفاف بین الاقوامی نظام کو فروغ دینے کے لیے چین کی کوششوں کو بین الاقوامی برادری نے بھرپور انداز سے تسلیم کیا ہے۔
چائنا میڈیا گروپ کے تحت سی جی ٹی این کی جانب سے عالمی سطح پر جاری کیے گئے ایک حالیہ سروے نتائج کے مطابق، 83.5 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ چین بین الاقوامی برادری کو ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گا۔
پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کی وکالت کرنے سے لے کر بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے تک، چین نے دنیا کو امن، سلامتی، خوشحالی اور ترقی کے روشن مستقبل کی جانب لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ صدر شی جن پھنگ کے مطابق چین کی ہر ایک قدم کی ترقی عالمی امن کے لیے امید میں اضافے کے مترادف ہے۔
پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصول پیش کرنے والے ملک کی حیثیت سے ، چین ہمیشہ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں پر قائم رہتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے چین نے کبھی بھی جنگ بھڑکانے یا دوسرے ممالک کی ایک انچ زمین پر حملہ کرنے میں پہل نہیں کی۔ چین نے ٹھوس اقدامات کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دوسرے ممالک کے ساتھ پرامن ترقی، دوستی اور تعاون اور دنیا کی مشترکہ ترقی کے راستے پر چلنے کے چین کے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
مساوات، باہمی فائدے اور پرامن بقائے باہمی کی اصل امنگوں پر عمل کرتے ہوئے یکجہتی کے جذبے کے ساتھ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تکمیل کے لیے مل کر کام کرنا ہی تمام انسانیت کے مفاد کا واحد راستہ ہے۔