اسلام آباد (عکس آن لائن) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے چین میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق درخواست کی سماعت میں وزارت خارجہ کو کہا ہے کہ چین سے پاکستانی شہریوں کو نہ نکالنے کے فیصلے پر نظرثانی کریں،
بنگلا دیش سمیت دیگر ممالک اپنے شہریوں کو چین سے نکال رہے ہیں، صرف ہم اپنے شہریوں کو کیوں نہیں نکال رہے، 23 ممالک اپنے شہریوں کو محفوظ کرنے کے انتظامات کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟
آسٹریلیا نے چین سے آئے شہریوں کو کسی آئی لینڈ پر رکھا،آپ گوادرکے پاس رکھ لیں، پاکستانی اسٹوڈنٹس چین میں محصور ہیں، کیا ریاست پاکستان بیان حلفی دے گی کہ کچھ ہواتو ذمہ دار کون ہوگا؟
عدالت چاہتی ہے ریاست اپنے شہریوں کی ذمہ داری لے، ایک پاکستانی کو بھی کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چین میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی.
جس سلسلے میں وزارت صحت اور وزارت خارجہ کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے جب کہ وزارت خارجہ کے ڈی جی چائنا نے تحریری رپورٹ عدالت میں پیش کی۔دورانِ سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بنگلا دیش سمیت دیگر ممالک اپنے شہریوں کو چین سے نکال رہے ہیں،
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکومت شہریوں کے تحفظ میں سنجیدہ نہیں، آپ نے پاکستان میں موجود 20 ملین افراد کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔وزارت خارجہ کے نمائندے نے عدالت میں بتایا کہ چین سے مسافروں کی آمدورفت پر پابندی نہیں، ائیرپورٹس پر اسکریننگ کی جاتی ہے،
چین نے کررونا وائرس سے متاثرہ ووہان سٹی کو مکمل لاک ڈا ون کیا ہوا ہے، جہاں سے کوئی بھی موو نہیں کرسکتا جب کہ چینی وزیرخارجہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانیوں کا خیال رکھا جائے گا۔نمائندے کے جواب پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہم اپنے شہریوں کو نکالیں گے تو چین سے تعلقات متاثر ہوں گے؟
اس پر نمائندہ وزارت خارجہ نے کہا کہ وزارت خارجہ اس صورتحال کو مانیٹر کررہی ہے، جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ملک اور طالب علموں کے مفاد میں ہوگا۔نمائندہ وزارت خارجہ نے مزید بتایا کہ ہم نے چینی حکومت سے کہا تھا ہمارے سفیر کو ووہان جانے کی اجازت دی جائے، چینی حکومت کا جواب تھا وہ کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے۔