بیجنگ (عکس آن لائن) چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے آسٹریلیا کا سرکاری دورہ کیا ہے۔ چینی میڈ یا کے مطا بق دونوں فریقین نے چین اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم کے سالانہ اجلاس کے نتائج پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اور معیشت، تجارت اور عوامی سطح پر تعلقات کے شعبوں میں تعاون کے سلسلے پر اتفاق کیا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی سمت میں ایک “بہت اہم قدم” قرار دیا۔
اس سال چین کے صدر شی جن پھنگ کے آسٹریلیا کے سرکاری دورے اور چین اور آسٹریلیا کے درمیان جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے قیام کی دسویں سالگرہ ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں چین اور آسٹریلیا کے تعلقات میں نشیب و فراز آئے ہیں۔ نومبر 2022 اور نومبر 2023 میں صدر شی جن پھنگ نے بالترتیب بالی، انڈونیشیا اور بیجنگ میں وزیر اعظم انتھونی البانیز سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات کو مستحکم اور بہتر بنانے پر اہم اتفاق رائے حاصل کیا۔ اس پس منظر میں چینی وزیر اعظم کا دورہ آسٹریلیا دوطرفہ تعلقات کی مسلسل ترقی کی تیز رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
چین اور آسٹریلیا کے تعلقات کس طرح دوطرفہ تعلقات کی مشکل سے حاصل کردہ مثبت رفتار کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور فروغ دے سکتے ہیں؟ تجربے سے سب سے اہم سبق یہ ہے کہ باہمی احترام پر قائم رہیں، اختلافات کو بالا طاق رکھتے ہوئے مشترکہ نکات تلاش کریں، اور باہمی فائدے کے لئے تعاون کریں.
مختلف ملکوں کے درمیان تبادلے کی کلید ایک دوسرے کے قومی حالات اور بنیادی مفادات کا احترام کرنے میں مضمر ہے۔ چینی اور آسٹریلوی وزرائے اعظم کے درمیان سالانہ اجلاس میں آسٹریلوی فریق نے کہا کہ وہ ون چائنا پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ‘تائیوان کی علیحدگی ‘ کی حمایت نہیں کرتا اور اختلافات کو دوطرفہ تعلقات کا تعین نہیں کرنے دیگا، اور آسٹریلیا-چین تعلقات کی مسلسل بہتری اور ترقی کو فروغ دیگا. اگر ان بیانات پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کیا جاتا ہے تو وہ چین اور آسٹریلیا کے درمیان باہمی اعتماد کی ایک مضبوط بنیاد قائم کرتے رہیں گے۔
چین اور آسٹریلیا ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں اہم ممالک ہیں، اور ان میں کوئی تاریخی شکایات اور مفادات کا بنیادی ٹکراؤ نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان وسیع اتفاق رائے ہے اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے ہم آہنگی اور تعاون کرنا چاہئے. حالیہ برسوں میں، جب امریکہ نے چین کے ساتھ ایک جامع تزویراتی مقابلہ شروع کیا ہے اور ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں اپنے اتحادیوں کو بلاک محاذ آرائی میں شامل کیا ہے، چین اور آسٹریلیا کی دوستی اور تعاون میں خلل پڑا ہے اور اس پر اثر پڑا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم البانیز نے حال ہی میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ خارجہ پالیسی کی طاقت کا اصل پیمانہ اختلافات کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے کی صلاحیت ہے، محاذ آرائی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں۔ کیا آسٹریلیا کو چین کو روکنے کے لیے امریکہ کے ایک “مہرے” کے طور پر کام کرنا ہے، یا چین کو اپنے مفادات کی بنیاد پر منطقی طور پر سمجھنا اور ایشیا بحرالکاہل میں بلاک محاز آرائی سے گریز کرنا ہے؟ یقین ہے کہ آسٹریلوی سیاسی حلقوں کے پاس پہلے ہی اس کا جواب موجود ہے۔